کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 180
وصیت کی تو مسلمانوں کے لائق نہیں کہ اس کے جواز کا فتوی دیں کیونکہ انھیں وہ فتوی دینا چاہیے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور حکم الٰہی یہ ہے کہ کفرو فسق اور نافرمانی کے امور میں باہمی تعاون نہ کرو، لہٰذا کفر و عصیاں کی جگہوں کے لیے مال وقف کرنے میں تعاون کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟" منسوخ شدہ کتب، مثلاً: تورات انجیل یا گمراہ کن کتب کی طباعت واشاعت کی وصیت کرنا بھی درست نہیں، مثلاً: زندیقوں اور ملحدوں کی کتب۔ احکام وصیت میں سے ایک حکم یہ ہے کہ موصیٰ بہ( جس چیز کی وصیت کی گئی ہے) مال کی شکل میں ہو یا اس سے جائز منافع حاصل ہو اگرچہ اس کی سپرد گی سے وہ عاجز ہو، مثلاً:فضا میں موجود پرندے کے بارے میں وصیت کرنا یا (جانور کے) پیٹ میں موجود بچے کے بارے میں وصیت یا جانور کے تھنوں میں موجود دودھ کے بارے میں وصیت کرنا یا معدوم چیز کے بارے میں وصیت کرنا، مثلاً: کسی نے وصیت کی کہ اس کے جانور کے پیٹ میں جو بچہ ہو گا یا فلاں درخت کا پھل ہمیشہ کے لیے ایک سال کے لیے تمہارا ہوگا۔ اگر معدوم شے سے کچھ حاصل ہوا تو وہ موصیٰ لہ کا ہے، ورنہ وصیت باطل قرار پائے گی کیونکہ وصیت نافذ ہونے کا محل موجود نہیں رہا۔ مجہول شے کی وصیت کرنا درست ہے، مثلاً: کسی نے کسی کو غلام یا بکری دینے کی وصیت کی تو موصیٰ لہ کوکوئی غلام یا بکری مہیا کی جائے گی۔ وصیت کے احکام میں یہ بھی ہے کہ اگر موصی (وصیت کرنے والے )نے تہائی مال کی وصیت کی ،پھر وصیت کے بعد مزید مال حاصل ہوا تو تہائی میں نیا مال بھی شامل ہو گا کیونکہ تہائی مال سے مراد اس مال کی تہائی ہے جو عند الموت موجود ہے نہ کہ بوقت وصیت ۔ وصیت کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ اگر موصی نے کسی شخص کو اپنے مال میں سے کوئی مخصوص شے دینے کی وصیت کی لیکن وہ چیز موصی کی موت سے قبل یا بعد میں ضائع ہو گئی تو وصیت باطل ہو جائے گی کیونکہ وصیت کردہ چیز کے ضائع ہونے کی وجہ سے موصیٰ لہ کا حق ختم ہو گیا۔ احکام وصیت میں یہ بھی ہے اگر کسی نے وصیت میں مال کی حد مقرر نہ کی اور یوں کہا:" میرے مال کا ایک سہم (حصہ ) فلاں شخص کو دیا جائے توکل ترکہ میں سے چھٹا حصہ مراد ہو گا کیونکہ کلام عرب میں "سہم "سے مراد چھٹا حصہ ہی ہوتا ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی یہی رائے ہے ۔علاوہ ازیں مرد کے لیے چھٹا حصہ (وراثت کے) فرض حصوں میں سے کم ازکم ہے، لہٰذا وصیت میں یہی مراد لیا جائے گا۔ اگر وصیت کرنے والے نے کہا:"فلاں شخص کو کچھ مال دیا جائے لیکن اس کی مقدار متعین نہ کی تو موصیٰ لہ کو اس قدر مال دیا جائے گا