کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 177
وصیت کے نفاذ سے قبل لوگوں کے قرض اور اللہ تعالیٰ کے قرضے، یعنی واجبات شرعیہ، مثلاً:زکاۃ، حج ، نذر اور کفارے ادا کیے جائیں اگرچہ اس نے ان کی وصیت نہیں کیا تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ" "یہ حصے اس وصیت کی تکمیل کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد۔"[1] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ " "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے قبل قرض ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔"[2] اس روایت سے واضح ہوا کہ قرضوں کی ادائیگی وصیت کے اجرا پر مقدم ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: "اقْضُوا اللّٰهَ ، فَاللّٰهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ " "اللہ تعالیٰ کے قرض ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قرضوں کا ادا کرنا زیادہ حق رکھتا ہے۔"[3] الغرض اول قرض کی ادائیگی ہو گی، پھر اجرائے وصیت، پھر تقسیم ترکہ۔ اس ترتیب پر علماء کا اجماع ہے۔ اگرچہ وصیت کا نفاذ ادائیگی قرض سے مؤخر ہے لیکن قرآن مجید میں وصیت کا ذکر مقدم ہے۔ اس میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ وصیت میراث کی طرح بلا عوض ہوتی ہے جس کی وجہ سے وصیت کا حصہ نکالنا انسان پر گراں ہو تا ہے(جبکہ قرض خواہ اپنا قرض قوت سے بھی حاصل کر سکتا ہے ،نیز انسان کو اس کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے۔) قرآن مجیدمیں وصیت کا ذکر رغبت دلانے اور اس کی اہمیت کے پیش نظر مقدم رکھا گیا ہے۔ آیت میں(أَوْ)کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی" برابر"کے ہیں یعنی وصیت اور قرض اہمیت میں دونوں ہی برابر ہیں اگرچہ قرض ادائیگی میں وصیت پر مقدم ہے۔ وصیت کا معاملہ نہایت اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وصیت نافذ کرنے پر نہایت رغبت دلائی ہے۔اسی وجہ سے تذکرے میں اسے مقدم رکھا ہے۔ جائز وصیت کے نفاذ میں جو شخص کوتاہی کا مرتکب ہو یا کسی شرعی گنجائش (دلیل) کے بغیر ترمیم کرے اس کے لیے سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: "فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"
[1] ۔النساء:4/11۔ [2] ۔صحیح البخاری، الوصایا ،باب تاویل قولہ تعالیٰ : "مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ ۔۔۔۔۔۔" قبل حدیث 2750۔وجامع الترمذی الوصایا باب ماجاء یبدا بالدین قبل الوصیۃ، حدیث 2122 ومسند احمد۔1/79۔131۔ [3] ۔صحیح البخاری جزاء الصید باب الحج والنذور عن المیت۔حدیث۔1852۔