کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 146
كے پاس كوئی چیز ہے؟ ایک نے کہا: اللہ کی قسم! میں دم کرناجانتا ہوں لیكن تم نے ہماری مہمانی نہیں کی ، اس لیےمیں بھی اس کا علاج نہیں کروں گا الا یہ کہ تم ہمیں کوئی معاوضہ دو۔ الغرض بکریاں کا ایک ریوڑ دینےکے معاوضے میں مصالحت ہو گئی۔ صحابی رسول رسولۃ فاتحہ پڑھ کر تھوکنے لگا اور وہ (سردار) اس طرح تندرست ہوگیا گویا کوئی بیماری نہ تھی۔ اور انہوں حسب وعدہ بکریاں دے دیں ....جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے سارےواقعے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تجھے کس نے بتایا کہ یہ (سورت) ’’دم‘‘ ہے؟ پھر فرمایا: تم نے درست کیا ہے ،اسےباہم تقسیم کر لو اور اس میں میرا حصہ بھی مقرر کرو۔ "[1] (6)۔اگر کسی شخص نے علم ہوجانے کے بعد وہ کام کیا جس پر یہ خاص اجرت مقرر تھی تو کام کرنےوالا کام مکمل کرنے کی صورت میں اجرت کا مستحق ہوگا اور اگر ایک جماعت مقرر کردہ کام کرنے لگ جائے تو اجرت کی رقم ان میں برابر برابر تقسیم ہوگی۔اگر کوئی شخص از خود کام کرنے لگ جاتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں کہ اس پر اجرت مقرر ہوچکی ہے تو وہ اجرت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ اس نے ایسا کام کیا جس کے کرنے کی اسے اجازت نہ تھی،البتہ اگر کام کرنے کے دوران اسے علم ہوا تو علم ہوجانے کے بعد کے عمل کا مستحق ہوگا۔ (7)۔ "جُعَالَه"اور اجارہ(کسی کو اجرت پر رکھنا)درج ذیل امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں: (1)۔"جُعَالَه" کی درستی کے لیے ضروری نہیں کہ جس کام پر "جُعَالَه" مقرر کیا گیا ہو اسے عامل کے علم میں لایا جائے بخلاف اجارے کے۔اس میں شرط ہے کہ جس کام کی اجرت طےہوئی ہو، وہ عامل کے علم میں بھی ہو۔ (2)۔"جُعَالَه" میں کام کی مدت متعین نہیں ہوتی جبکہ اجارے میں مدت عمل متعین ہوتی ہے۔ (3)۔"جُعَالَه"میں مدت اور کام دونوں کو جمع کرنا جائز ہے،مثلاً: کوئی کہے:"جس نے اس کپڑے کی سلائی ایک دن میں کردی تو اسے اتنے روپے ملیں گے تو اگر اس نے اس مقرر دن میں سلائی کردی تو وہ انعام کامستحق ہوگا ورنہ
[1] ۔صحیح البخاری الاجارۃ باب مایعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب حدیث 2276۔وصحیح مسلم السلام باب جواز اخذ الاجرۃ علی الرقیۃ بالقرآن والاذکار، حدیث 2201۔