کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 142
(1)۔جب کسی نے ویران زمین کو درخت لگا کر یاباڑ لگا کر گھیرلیا ہوتو گویا اس نے اسے آبادکرلیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " مَنْ أَحَاطَ حَائِطًا عَلَى أَرْضٍ فَهِيَ لَهُ " "جس نے کسی ویران زمین پر دیوار کرلی یا باڑ لگادی وہ اس کا مالک قرار پائے گا۔"[1] ویران زمین کو آباد کرنے سے ملکیت تب ثابت ہوگی جب اس نے واقعتاً اس کو آباد کیا ہو،درخت لگائے ہوں یا مکانات تعمیر کیے ہوں یاپانی کے لیے کنویں کھودے ہوں۔ واضح رہے زمین کی آبادی اورملکیت صرف ظاہری علامات لگانے اور مٹی یا اینٹوں کی چھوٹی سی چار دیواری کرنے سے جو ادھر اُدھر سے رکاوٹ نہ بنے،یا اردگرد کھدائی کردینے سے ثابت نہ ہوگی،البتہ اس سے اس کا حق دوسروں سے فائق ضرورہوگا۔اور وہ اس زمین کو فروخت بھی نہیں کرسکتا جب تک اسے صحیح اور حقیقی طور پر آباد نہ کرلے۔ (2)۔جس نے ویران زمین میں کنواں کھوداکہ اس سے پانی تک رسائی ہوگئی تو گویااس نے آباد کردیا وگرنہ وہ مالک نہ ہوگا،البتہ اس سے اس کا حق دوسرے پرمقدم ہوگا کیونکہ اس نے اس کی آبادی کاری میں پہل کی ہے۔ (3)۔اگر کسی نے ویران زمین تک چشمے یانہر کے پانی کا اجراکردیا تو بھی اس نے اسے آباد کرلیا کیونکہ دیوار کرنے کی نسبت پانی پہنچانے سےزمین کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ (4)۔اگرکوئی جگہ پانی جمع ہونے کی وجہ سے ناقابل کاشت اور غیر آباد تھی تو کسی نے وہ پانی نکال کر اسے قابل کاشت بنالیا تو گویا اس نے اسے آباد کرلیا،لہذا وہ اس کا مالک ہوگا کیونکہ پانی مہیا کرنا یا ٹھہرے ہوئے پانی کو نکالنا محض دیوار کرلینے سے،جس کا ذکر حدیث میں ہے،زیادہ فائدے والا عمل ہے کیونکہ وہ یہاں اقامت کرکے اس کا مالک بنا ہے۔ بعض علمائے کرام کی یہ رائے ہے کہ غیر آباد کی آبادی کے لیے کوئی متعین علامات وشرائط نہیں بلکہ اس کا دارومدار وہاں کے لوگوں کے عرف پر ہے،یعنی جن صورتوں میں لوگ زمین کو آباد سمجھتے ہوں وہ صورت وعلامت ہوگی تو زمین کو آباد کہا جائے اور وہ اس کامالک ہوگا وگرنہ نہیں۔اکثرعلمائے حنابلہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے ملکیت کے لیے کوئی شرائط متعین نہیں کیں،لہذا زمین کی آبادی کے حکم کا دارومدار عرف عام پر ہوگا۔ (2)۔حاکم کو حق حاصل ہے کہ ویران وغیرآباد اراضی ان لوگوں میں تقسیم کردے جو انھیں آباد کرسکتے ہوں۔
[1] ۔سنن ابی داود الخراج باب فی احیاء الموات حدیث 3077 ومسند احمد 3/381۔