کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 137
ہونا ضروری ہے۔ امانت کی حفاظت کی ذمے داری وہی شخص قبول کرے جسے اپنے بارے میں یقین اور اعتماد ہو کہ اس کی حفاظت کرسکے گا۔واضح رہے یہ انتہائی درجے کا ثواب کا کام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "وَاللّٰهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ" "اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے۔"[1] نیز یہ لوگوں کی حاجت اور ضرورت بھی ہے جس شخص کو اپنے بارے میں علم ہو کہ وہ امانت کی حفاظت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ایسے ایسی ذمے داری ہرگز قبول نہیں کرنی چاہیے۔ (1)۔امانت کے ضائع ہونے کی صورت میں مودع(جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے) ضامن نہیں ہوگا، بشرطیکہ اس نے ذمے داری میں کوتاہی نہ کی ہو۔یہ ایسے ہی ہے جیسے اس کا ا پنا مال ضائع ہوجائے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مَنْ أُودِعَ وَدِيعَةً، فَلَا ضَمَانَ عَلَيْهِ" "امانت جس کے حوالے کی گئی اس پر ضمان نہیں۔"[2] ایک روایت میں ہے: "لَا ضَمَانَ عَلَى مُؤْتَمَنٍ ""امین پر(امانت ضائع ہونے کی) ذمے داری نہیں۔"[3] ایک اور روایت میں ہے: "لا على المُسْتَوْدَع غير المُغِلّ ضمَان" "خیانت نہ کرنے والے امین پر تاوان نہیں۔[4] اس میں حکمت یہ ہے کہ امانت دار شخص اجروثواب کی خاطر امانت کی حفاظت کرتا ہے۔اگر بلاوجہ اس پر امانت کے ضیاع کا تاوان ڈال دیا جائے تولوگ اس ذمے داری کو قبول کرنے میں پس وپیش کریں گے جس سے کئی لوگوں کا نقصان ہوگا،نیز فوائد کے حصول کے لیے یہ باعث رکاوٹ ہے۔ اگرامانت دار نے امانت کے تحفظ میں کوتاہی سے کام لیا تو تاوان اس پر ڈالا جائے گا کیونکہ اس نے اپنی غلطی سے کسی کا مال ضائع کیا ہے۔
[1] ۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر حدیث 2699،ومسند احمد 2/296۔ [2] ۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الصدقات باب الودیعۃ حدیث 2401۔ [3] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 3/40 حدیث 2938۔ [4] ۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 3/40حدیث 2939۔