کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 129
غصب کے حرام ہونے پر اہل اسلام کا اجماع ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ" "اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔"[1] "غصب"باطل طریقے سے مال کھانے کا بہت بڑا اور بُرا حربہ ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ" "تمہارے خون،تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں۔"[2] نیز فرمایا: " لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسِهِ " " کسی مسلمان کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ "[3] مغصوب(غصب كياگیا) مال"غیرمنقول" ،یعنی زمین،مکان وغیرہ بھی ہوسکتا ہے اور"منقول"(رقم،جانور وغیرہ) بھی ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا، طوَّقَهُ اللّٰهُ إيَّاهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ " "جوشخص کسی کی زمین میں سے ایک بالشت کے برابر ناجائز قبضہ کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنائے گا۔"[4] غاصب پر لازم ہے کہ وہ طلب معافی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور غصب کردہ شے مالک کو لوٹائے اور اس سے بھی معافی مانگے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَلَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ وفي لفظ :" فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ "وفي رواية مسلم: فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ" "اگر کسی شخص پر اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق ہے جواس نے اس پر اس کی عزت یا کسی بھی حوالے سے
[1] ۔البقرۃ:2/188۔ [2] ۔صحیح البخاری العلم باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب حدیث 105۔ [3] ۔(ضعیف)سنن دارقطنی :3/22،حدیث:2862۔ [4] ۔صحیح البخاری المظالم باب اثم من ظلم شيئا من الارض حدیث 2452،2453،وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم الظلم وغصب الارض وغیرھا حدیث 1610،ومسند احمد:2/432 واللفظ لمسلم۔