کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 119
راستے کی راہنمائی لینا جیسا کہ سفر ہجرت کے بارے میں اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث صحیح بخاری میں ہے،وہ فرماتی ہیں: " استَأجَرَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلا مِنْ بَنِي الدِّيلِ هَادِيًا خِرِّيتًا" "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بنو دیل سے راستوں کا ماہر آدمی (عبد اللہ بن اریقط) اجرت پر لیا۔"[1] گھروں ، دکانوں اور جگہوں کو معصیت کے کاموں کے لیے کرائے پر دینا جائز نہیں، مثلاً : شراب کی بیع کے لیے یا حرام مال، مثلاً: سگریٹ ،تمباکو،ناجائز تصاویر وغیرہ کی خریدو فروخت کے لیے کیونکہ اس میں گناہ اور معصیت پر تعاون پایا جاتا ہے۔ جس نے کوئی شے کرائے پر حاصل کی ،پھر وہ شخص وہی شے کسی دوسرے شخص کو کرائے پر دے سکتا ہے جو اس کا قائم مقام ہو کر فائدہ حاصل کرے۔ کیونکہ یہ فائدہ اس کی ملکیت ہے، خواہ وہ بذات خود اس سے مستفید ہو یا نیابتاً مستفید ہو، جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مستاجر ثانی کا فائدہ مستاجر اول کے فائدے کے مساوی ہو یا اس سے کم ہو۔ یعنی مالک شے کو زیادہ نقصان نہ پہنچایا جائے ،مثلاً ایک شخص نے رہائش کے لیے کسی سے کرائے پر مکان لیا تو وہ کسی دوسرے کو بھی رہائش کے لیے وہی مکان دے سکتا ہے، البتہ یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو وہی جگہ ،کار خانے یا فیکٹری وغیرہ کے لیے دے دے۔ قربت الٰہی اور عبادت کے اعمال پر اجرت لینا دینا جائز نہیں، مثلاً :حج یا اذان وغیرہ کیونکہ یہ اعمال اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ادا کیے جاتے ہیں، لہٰذا اجرت لینے سے اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے، البتہ اگر کسی کے نیک اعمال (اذان دینے، امامت کروانے اور کتاب و سنت کی تعلیم دینے ) سے دوسروں کو فائدہ پہنچ رہا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بیت المال سے ضروریات زندگی کے لیے تنخواہ وصول کرے۔ واضح رہے کہ یہ معاوضہ نہیں ہے بلکہ یہ نیکی اور اطاعت کے کاموں میں اعانت ہے، اس سے نہ اجرو ثواب متأثر ہو گا اور نہ خلوص میں خلل سمجھا جائے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔ مالک پر لازم ہے کہ جو شے اجرت پر دے رہا ہے وہ بالکل درست ہو۔ یعنی مطلوب نفع دینے کے قابل ہو، مثلاً: کرائے پر دی گئی گاڑی کا سفر اور بوجھ اٹھانے کے قابل ہونا ،مکان کا ٹھیک حالت میں ہونا۔ اور اگر اس کی کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ گئی ہو تو اس کی مرمت کرنا مالک کی ذمے داری ہے تاکہ مستاجر اس سے مکمل فائدہ حاصل کر سکے۔
[1] ۔صحیح البخاری ،الاجارۃ، باب اذا استاجر اجیر اً لیعمل لہ بعد ثلاثۃ ایام حدیث:2264۔