کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 116
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"مزارعت اجارے (اجرت) سے زیادہ اصلیت رکھتا ہے کیونکہ نفع یا نقصان کی تقسیم میں دونوں مشترک ہیں۔" امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’انسان مزارعت میں ظلم و نقصان سے اجارے کی نسبت زیادہ دور رہتا ہے کیونکہ اجارے میں ایک کو فائدہ یقینی ہے جبکہ مزارعت میں اگر پیداوار ہوئی تو اس میں دونوں شریک ہوں گے وگرنہ دونوں محروم ہوں گے۔‘‘ [1] مزارعت کی درستی کے لیے شرط ہے کہ عامل یا مالک کے لیے غلے کی مقدار متعین بطریق مشاع ہو، مثلاً: زمین کی پیداوار کا تہائی یا چوتھائی حصہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے نصف پیداوار کا معاہدہ کیا تھا۔ [2] اگر ایک فریق کا حصہ معلوم ہو جائے تو باقی مال دوسرے فریق کا حصہ ہو گا کیونکہ غلہ دونوں کا ہے۔ اگر ایک فریق کے حصے کی تعیین یوں ہوئی کہ اسے مقررہ دس صاع یا زمین کے مخصوص حصے کی آمدن ملے گی اور باقی دوسرے فریق کا حصہ ہوگا تویہ مزارعت درست نہیں یا مالک زمین نے شرط عائد کی کہ بیج کا خرچہ غلے کی صورت میں الگ وصول کرے گا اور باقی پیداوار دونوں میں تقسیم ہو گی تویہ بھی درست نہیں کیونکہ کبھی بیج کے خرچ کے مساوی پیداوار ہو سکتی ہے تو دوسرا فریق محروم رہے گا ۔سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: " سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، فَقَالَ:لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ، فَيَهْلِكُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَهْلِكُ هَذَا، فَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زُجِرَ عَنْهُ، " "(حضرت حنظلہ بن قیس کہتے ہیں: ) میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو سونے، چاندی (درہم و دینار)کے عوض کرائے پر دینے سے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں لوگ عہد نبوی میں اپنے کھیتوں کو اس شرط پر کاشت کے لیے دیتے تھے کہ پانی کی گزرگاہ کے قریب کا حصہ یا جس سمت سے پانی آتا ہے ادھر کا حصہ یا مخصوص حصے کی پیداوار ہماری ہو گی، چنانچہ کبھی اس حصے کی پیداوار تباہ ہو جاتی اور دوسرے حصے کی سلامت رہتی اور کبھی اس کی پیداوار سلامت رہتی اور اس حصے کی تباہ ہو جاتی ۔ لوگوں میں یہی مزارعت معروف اور رائج تھی اس لیے اس سے منع فرما دیا۔"[3]
[1] ۔اعلام الموقعین:2/8۔ [2] ۔صحیح مسلم المساقاۃ، باب المساقاۃ والمعا ملۃ حدیث1551۔ [3] ۔صحیح مسلم البیوع باب کراء الارض بالذھب والورق حدیث :1547۔