کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 115
کےمساوی نہ ہو۔ اسی طرح کسی فریق کے لیے ایک یا زیادہ مخصوص درختوں کا پھل ملنے کی شرط لگائی گئی تو مساقات درست نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے ان درختوں پر پھل ہی نہ لگے یا صرف انھی پر پھل لگے اور کوئی ایک فریق آمدن سے محروم ہو جائے، نیز اس میں دھوکے اور نقصان کا پہلو بھی ہے۔ اور صحیح بات جس پر جمہور علماء قائم ہیں ،یہ ہے کہ مساقات ایسا معاہدہ ہوتا ہے جس پر عمل کرنا لازمی ہے اور اس کا فسخ دوسرے فریق کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ۔ مدت معاہدے کی تعیین ضروری ہے اگرچہ وہ مدت لمبی ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ درخت اتنا عرصہ باقی رہیں۔ عامل کے ذمے وہ سب کام ہیں جو عرفاً کھجوروں اور دیگر درختوں کی درستی و آبادی اور پھلوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہیں، مثلاً: زمین کی اصلاح اور اسے پانی دینا اسی طرح پھلوں کو خشک کرنا پانی کی نالیوں کو صاف کرنا اور انھیں درست رکھنا اور پانی درختوں تک پہنچانا وغیرہ۔ مالک پر لازم ہے کہ وہ اصل مال (درختوں) کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری چیزوں کا بندوبست کرے، مثلاً: کنواں بنوانا، باغ کی چار دیواری کروانا اور درختوں کو مضبوط اور بہتر کرنے کے لیے کھاد وغیرہ مہیا کرنا۔ مزارعت کی درستی کے لیے یہ شرط نہیں کہ مالک عامل کو بیج بھی مہیا کرے۔ اگر مالک نے صرف زمین عامل کے حوالے کر دی تاکہ وہ خود بیج ڈالے تو عقد مزارعت درست ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کی رائے تھی، نیز آج تک لوگوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ مزارعت کے جواز میں قصۂ خیبر کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے اس میں قطعاً یہ ذکر نہیں کہ بیج مہیا کرنا مسلمانوں کے ذمے تھا۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جن لوگوں نے مزارعت میں بیج مہیا کرنے کی ذمے داری مالک پر شرط قراردی ہے انھوں نے اسے مضاربت پر قیاس کیا ہے، حالانکہ یہ قیاس سنت صحیحہ اور اقوال صحابہ کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ قیاس فاسد ہے کیونکہ مضاربت میں مال مالک کو واپس مل جاتا ہے اور نفع دونوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مزارعت میں زمین مالک کو واپس مل جاتی ہے لیکن بیج اسے اسی حالت میں واپس نہیں ملتا بلکہ وہ زمین کے نفع (پیداوار ) کی صورت میں دونوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ،لہٰذا بیج کو نفع میں شامل کرنا زمین کے ساتھ شامل کرنے کی نسبت زیادہ درست ہے۔(الغرض مزارعت کو مضاربت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے)۔[1] مزارعت کو مخابرہ اور مواکرہ بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ عامل کو مزارع ،مخابر اور مواکر کا نام دیا جاتا ہے۔ مزارعت کے جواز کی نقلی اور عقلی دلیل اس باب کے شروع میں بیان ہو چکی ہے۔
[1] ۔اعلام الموقعین:2/9۔