کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 106
"وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ" "اور بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل (روزی بھی )تلاش کریں گے۔"[1] مضاربت کے شرعی معنی ہیں:"ایک شخص مال فراہم کرے اور دوسرا اس میں کاروبار کرے جبکہ منافع طے شدہ حصوں کے مطابق دونوں میں تقسیم ہو۔" واضح رہے کہ مضاربت کی صحت کی شرط یہ ہے کہ کام کرنے والے کا نفع میں حصہ مقرر ہو کیونکہ وہ شرط کی وجہ سے اس کو وصول کرنے کا حق رکھتا ہے۔ کاروبار کی یہ صورت بالا جماع جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مضاربت ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قائم رکھا۔سیدنا عمر ، عثمان ،علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے اس کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں۔نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ (قیاس اور) حکمت بیع مضاربت کے جواز کی متقاضی ہے کیونکہ لوگوں کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، نیز درہم و دینار تجارت اور کاروبار کرنے ہی سے تو بڑھتے ہیں۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ مضاربت میں کاروبار کرنے والا شخص امانت دار ،مزدور، وکیل اور حصے دار ہوتا ہے۔ اس اجمال کی وضاحت یوں ہے کہ جب وہ مال قبضے میں لیتا ہے تو وہ امین ہے۔جب وہ مال میں تصرف کرتا ہے تو وکیل ہے۔اور بعض اعمال خود انجام دینے کی وجہ سے مزدور ہے ،جبکہ نفع حاصل ہونے کی صورت میں مال مہیا کرنے والے کا حصے دار اور شریک ہے ۔مضاربت کے صحیح ہونے کی یہ شرط ہے کہ عامل (محنت کرنے والے) کا حصہ مقرر ہو کیونکہ وہ اس حصے کا شرط کے ساتھ ہی مستحق ہو گا۔‘‘ [2] ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’علمائے کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کاروبار کرنے والے کو چاہیے کہ وہ مالک مال سے تہائی یا چو تھائی نفع لینے کی شرط طے کر لے یا دونوں کی رضا سے نفع کی تقسیم میں جو معاہدہ بھی ہو جائے درست ہے۔ اگر صاحب مال نے کاروبار کرنے والے کے لیے سارا نفع مقرر کر دیا یا نفع دینے کی رقم متعین کر دی (مثلاً ہزار روپے) یا مجہول حصہ طے رکھا تو یہ معاہدہ فاسد ہوگا۔‘‘[3] کاروبار کرنے والے شخص کے نفع کی تعیین دونوں کی رضا مندی سے ہو گی ۔ اگر صاحب مال نے محنت کرنے والے سے کہا کہ تم تجارت کرو، نفع ہم دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا تو ہر ایک کو نفع کا نصف نصف حصہ ملے گا ۔کیونکہ اس کے جملے کا یہی واضح مطلب ہے، جیسے ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے:یہ گھر میرے اور تمہارے درمیان مشترک ہے تو دونوں کا نصف نصف استحقاق ہو گا۔
[1] ۔المزمل 73۔20۔ [2] ۔زاد المعاد:1/161۔ [3] ۔المغنی والشرح الکبیر :5/140۔