کتاب: فقہی احکام و مسائل(جلد2) - صفحہ 100
"کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شریک کو اطلاع دیے بغیر(مشترک شے) فروخت کرے۔"[1] ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کسی بھی شخص کے لیے حرام ہے کہ وہ مشترک شے اپنے شریک کو اطلاع دیے بغیر فروخت کرے۔اگر اس نے ایسا کیا تو شفیع خریدنے کا زیادہ حقدار ہے۔اگر شفیع کو بوقت بیع اطلاع کردی گئی لیکن اس نے کہا کہ مجھے اس چیز کی ضرورت نہیں تو بعد از بیع وہ حق شفعہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔یہی حکمت شرعیہ کا تقاضا ہے جس کا کوئی معارض نہیں اور یہی بات درست ہے۔"[2] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ کہا ہے بعض علماء کی یہی رائے ہے ،البتہ جمہور علماء کے نزدیک شفیع کا حق شفعہ بیع کی اجازت دینے سے ساقط نہیں ہوتا۔واللہ اعلم۔ 4۔شفعہ شرعی حق ہے جس کا احترام واجب ہے اور اسے حیلہ سازی سے ساقط کرانا حرام ہے کیونکہ اس کا مقصد شریک کو ضرر ونقصان سے بچانا ہے جبکہ شفعے کو ساقط کرنے کے لیے حیلہ سازی اس کے جائز حق پر تعدی اور ظلم ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کسی مسلمان کا حق شفعہ وغیرہ ساقط کرنے کے لیے حیلہ سازی کرنا حرام ہے۔"[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُودُ , فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللّٰهِ بِأَدْنَى الْحِيَلِ " "ان اعمال کا ارتکاب نہ کرو جن کا ارتکاب یہودیوں نے کیا،کہ تم مختلف حیلوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کوحلال قراردینے لگو۔"[4] 5۔حق شفعہ کو ساقط کرنے کا ایک حیلہ یہ ہے کہ کوئی یہ ظاہر کرے کہ اس نے فلاں کو اپنا حصہ ہبہ کردیا ہے جبکہ حقیقت میں اسے فروخت کیا ہو۔اسی طرح اسقاط شفعہ کی ایک اور صورت یہ ہے کہ چیز کی قیمت بظاہر اس قدر بڑھا دی جائے کہ شریک کی قوت خرید سے باہر ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حق شفعہ کو ختم کرنے کے لیے حیلہ کرنا ناجائز ہے۔الفاظ کی تبدیلی سے معاملے کی حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی۔"[5] 6۔شفعہ غیر منقسم زمین میں ہوتا ہے۔اس زمین کے پودے،گھاس اور وہاں موجود عمارت وغیرہ اشیاء بھی شفعے میں شامل ہوں گی۔اگر زمین کی تقسیم ہوگئی لیکن پڑوسیوں کے درمیان مرافق مشترک رہیں،مثلاً :راستہ،پانی وغیرہ تو صحیح قول کے مطابق حق شفعہ موجود رہے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث کا یہی مفہوم ہے۔ارشاد نبوی ہے:
[1] ۔صحیح مسلم المساقاۃ باب الشفعۃ حدیث 1608۔ [2] ۔اعلام الموقعین 2/123۔ [3] ۔اعلام الموقعین 3/260۔ [4] ۔ تفسیر ابن کثیر الاعراف 7/163۔ [5] ۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ :30/386۔