کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام - صفحہ 6
ابن عبدالبر نے کہا: "وروی ابن نافع وعبدالمالک ومطرف عن مالک أنہ قال: توضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ فی الفریضۃ والنافلۃ ، قال : لا باس بذلک ، قال ابو عمر: وھو قول المدنیین من اصحابہ" ابن نافع، عبدالمالک اور مطرف نے (امام ) مالک سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: "فرض اور نفل (دونوں نمازوں( میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ابو عمر (ابن عبدالبر) نے کہا: اور ان (امام مالک) کے مدنی شاگردوں کا یہی قول ہے۔" (الاستذکار: ۲۹۱/۲( "مدونہ" کی تقلید کرنے والے مالکی حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں، اگر کسی مقلد مالکی سے ہاتھ چھوڑنے کی دلیل پوچھی جائے تو وہ کہتا ہے کہ : " میں امام مالک کا مقلد ہوں، دلیل ان سے جاکر پوچھو،مجھے دلائل معلوم ہوتے تو میں تقلید کیوں کرتا؟" (تقریر ترمذی ص ۳۹۹( شیعہ اور مقلد مالکیوں کے مقابلے میں اہل حدیث کا مسلک یہ ہے کہ ہر نماز میں حالت ِ قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں۔اور دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھنا چاہیے۔ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، اہل حدیث کے نزدیک نماز میں ناف سے اوپر سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں۔ سیدنا ہلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسند احمد ۲۲۶/۵، وسندہ حسن( امام بیہقی لکھتے ہیں: "باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوٰۃ من السنۃ" باب : نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی ۳۰/۲( اس کے برعکس حنفی وبریلوی و دیوبندی حضرات یہ کہتے ہیں کہ "نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں۔"