کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 15
((اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَه فِیْ طاعة اللّٰهِ)) (مشکوة کتا ب الایمان) اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہادکیا۔ اس حدیث میں فی طاعۃ اللہ کے الفاظ اس گمان باطل کو رد کرنے کے لئے کافی ہیں- کیونکہ ان کے ریاضت و مجاہدہ میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں ہیں جو صریحاً کتاب و سنت کے منافی ہیں- مثلاً ترک نکاح‘ چلے کاٹنا اور اپنے جسم کی تعذیب اور اسے مختلف طریقوں سے مضمحل کر کے کمزور بنانا وغیرہ، حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایسے کام مجاہدہ نفس نہیں بلکہ نفس کشی ہوتی ہے- اور فی طاعۃ اللہ کی بجائے فی معصیۃ اللہ ہوتے ہیں- اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اسلامی نقطہ نگاہ سے ان چیزوں کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے- بعض صوفیہ اسی ’’جہاد بالنفس یا جہاد بالقلب‘‘ پر اتنا زور دیتے ہیں کہ وہ اسے ’’جہاد اکبر‘‘ قرار دیتے ہیں ہمیں اس نظریہ سے اتفاق نہیں۔ کیونکہ مندرجہ حدیث محض اس حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جس میںجہاد کے اس ایک پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ تاہم جہاد بالنفس کی بنیادی اہمیت سے نہ کسی کو انکار ہے نہ اختلاف کی گنجائش۔ جہاد باللسان: پھر جب انسان خود کو رضائے الہٰی کے تابع بنا لیتا ہے تو اسے برے کاموں اور ظلم و عصیان سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے حتیٰ کہ وہ دوسروں کو برے یا خلاف شریعت کام کرتے ہیں دیکھ نہیں سکتا اور یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہوتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو بھی ہر قیمت پر ایسے برے کاموں سے روک دے۔ اسی کیفیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:- (مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِه فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) (مسلم -کتاب الایمان -باب کون النهی عن المنکر) تم میں سے جوکوئی بدی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتا تو زبان سے روکے اور ایسا بھی نہیں کر سکتا تو دل سے (ہی برا جانے) او یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔ پھر جوں جوں اس کا ایمان پختہ تر ہوتا جاتا ہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ کسی سرکش قوت کے سامنے حق بات کہنے سے نہیں چوکتا جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (اَفْضَلُ الْجِهَادِکَلِمَةُ الْحَقِّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ) کسی ظالم قوت کے سامنے سچی بات کہہ دینا افضل الجہاد ہے۔