کتاب: مسنون ذکر الٰہی، دعائیں - صفحہ 215
سعادت کا معنیٰ لیا۔ ایسے ہی دیگر واقعات کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو یہی نتیجہ اَخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلتے ہوئے سرِراہ ملنے والے کی زبان سے نکلے ہوئے اچھے کلمات کو اچھے مطالب پر محمول کیا اور پسند فرمایا مگر ہمارے ہاں برصغیر کے ممالک خصوصاً پاک و ہند میں لفظِ فال کے جو مفاہیم و مطالب لیے جاتے اور معمول بہا ہیں ان کا اس حدیثِ پاک اور دیگر واقعات سے دُور کا بھی واسطہ نہیں، بلکہ وہ سب انداز لٹیروں نے ڈاکے مارنے اور جیبیں کاٹنے کے لیے اپنا رکھے ہیں۔ جنھیں ’’پھال‘‘ (فال) ٹیوہ لگانا، ہاتھ دیکھنا وغیرہ جیسے نام دیتے ہیں۔ مثلاً: (1)کسی کی چوری ہو جائے تو احباب اسے دلاسہ دینے اور دل جوئی کرنے آتے ہیں اور جاتے ہوئے چارہ سازی کے لیے یہ مشورہ بھی دیے جاتے ہیں کہ بھئی! فلاں جگہ ایک ’’سیانا پھال پاندا اے‘‘ (فال نکالتا ہے) اس کے پاس جاؤ، وہ آپ کو بتادے گا کہ تمھارا چور کون ہے؟ لیجیے اب کہیے کہ اُس ’’فلاں‘‘ کو عالم الغیب سمجھیں؟