کتاب: مسنون ذکر الٰہی، دعائیں - صفحہ 214
ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ حدیث کے الفاظ کو بہ غور پڑھیں اور دیکھیں کہ کس فال کو پسند فرمایاہے؟ اور فال کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تعریف کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا: (( مَا الْفَالُ؟ )) ’’فال کیا ہے؟‘‘ تو فرمایا: (( اَلْکَلِمَۃُ الْحَسْنَۃُ یَسْمَعُھَا الرَّجُلُ )) [1] ’’فال اس اچھے کلمہ کو کہتے ہیں جسے آدمی سُنتا ہے۔‘‘ اس کو آپ اس مثال سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کام کو گھر سے نکلا، راستے میں اتفاق سے کسی ملنے والے نے کہا: ’’مُوَفَّقٌ اِنْ شَآئَ اللّٰہ‘‘ ’’اللہ خیر کرے گا۔‘‘ تو یہ کلمہ پسند فرمایا گیا۔ ایسے ہی کتبِ حدیث میں بعض ضعیف الاسناد واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً سفرِ ہجرت میں کہیں کسی کے اُونٹ چرتے دیکھے، پوچھا کس کے ہیں؟ بتایا گیا کہ بنو اسلم کے ہیں تو اس کلمہ سے سلامتی اور کسی کے نام مسعود سے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۴۲۲) صحیح مسلم (۱۱۱)