کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 9
کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصنف: شیخ‌الحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفی رحمۃ اللہ علیہ پبلیشر: المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور ترجمہ: انبیاء کی حیات پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ، جیسا کہ شہداء کی حیات پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے لیکن یہ برزخی حیات ہے جس کی کیفیت و ماہیت کو ماسوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ اور برزخی زندگی کا دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے ۔ انبیاء کرام اور آپ ﷺ کی یہ حیات وفات سے پہلے والی حیات سے مختلف ہے اور یہ برزخی حیات ہے زیر نظر کتابچہ’’مسئلہ حیات النبی ﷺ‘‘ جید عالم دین شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو دیوبندی حلقوں میں باہمی دوفریقوں کے مسئلہ حیات النبیﷺ کے بارے میں اختلاف کی وجہ سے مولانا سلفی نے 1958ء اور 1959ء میں تحریر کیے۔جن میں مولانا سلفی مرحوم نے مسئلہ حیات النبیﷺ کو ادلہ شرعیۃ کی روشنی میں واضح کیا ۔یہ اُس وقت ماہنامہ ’’ر حیق اور ہفت روزہ الاعتصام میں قسط وار شائع ہوئے ۔ پھر 1960 ء میں انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔ موجودہ ایڈیشن کو دوبارہ مکتبہ سلفیہ نے 2004ء میں شائع کیا۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمدللہ کبیرا واشھد ان لا الہ الاللہ وحدہ لاشریک لاواشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔ ارسلہ بالحق بشیرًا ونذیرًا وصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تسلیماً کثیرًا کثیرا امّابعد۔
کچھ عرصہ ہوا ایک موحد عالم نے ملتان میں توحید کے موضوع پر تقریر فرمائی جو عوا م اور خواص میں پسند کی گئی، مگر ان کے حلقے کے بعض حضرات نے عقیدہ توحید میں استواری کے باوجود اس تقریر کے بعض حصوں پر اعتراض کیا اور اسے ناپسندکیا اور کوشش کی گئی کہ تقریر کے اثرات کو کم یازائل کیا جائے۔
مقرر نے توحید کے موضوع پر بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کا ذکر فرمایا اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھتے ہیں ان کے خیالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی "دنیوی زندگی" ہو تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو زندہ سمجھتے ہوئے کیسے دفن کیا۔ کیونکہ ناممکن ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھیں اور زمین میں دفن کیے رکھیں۔(یہ مفہوم ہے ممکن ہے کہ الفاظ میں فرق ہو(
چونکہ یہ مخالفت بااثر اہل علم حضرات کی طرف سے تھی۔ اور یہ حضرات بھی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس کا اثرپاکستان میں دوسرے مقامات پر بھی ہوا اور کوشش ہوئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ کیا جائے۔ بلکہ اس کا اثر ہندوستان بھی پہنچا ۔ چنانچہ ماہنامہ"دارلعلوم" دیوبند میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اور ایک تعارفی نوٹ مولانا سیّد محمد انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا۔ مگر دونوں مضامین میں کوئی جدت نہیں۔ حیات انبیاء کے متعلق وہی بریلوی نظر ہے جسے پھیلا دیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز بھی ہو عموماً بریلوی حضرات کی تحریرات میں ہوتا ہے دہرا دیا گیا ہے اس قدرتی فرق کے ساتھ کہ نفس مسئلہ کی تفصیل ہے ذاتیات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی گئی اہل علم سے یہی امید ہونی چاہیئے دلائل میں کوئی خوبی ہویا نہ ہو لیکن مضمون کے ڈنڈے پاکستان سے ملتے ہیں پھر اس کی