کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 86
((اَبْصِرُوْہَا فَاِنْ جَائَ تْ بِہٖ اَکْحَلَ الْعَیْنَیْنِ سَابِغَ الْإِلْیَتَیْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَیْنِ فَہُوَ لِشَرِیْکِ بْنِ سَمْحَآئَ )) فَجَائَ تْ بِہٖ کَذٰلِکَ ، قَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ((لَوْ لاَ مَضٰی مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ لَکَانَ لِیْ وَلَہَا شَاْنٌ)) رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ[1] حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’گواہ لاؤ یا تمہاری پیٹھ پر حد نافذ کی جائے گی۔‘‘ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے جب کوئی اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ زنا کرتے دیکھے تو کیا وہ گواہ تلاش کرنے چلا جائے ؟‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی بات ارشاد فرمائی ’’گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔‘‘ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی’’اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور ایسی آیتیں نازل فرمائے گا جن سے میری پیٹھ کو حد سے بچا لے گا۔‘‘ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیتیں لے کر نازل ہوئے ’’وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں ‘‘ سے لے کر ’’اگر وہ سچا ہے۔‘‘ تک (سورہ نور، آیت نمبر 16-6)(آیات نازل ہونے کے بعد)حضرت ہلال رضی اللہ عنہ آئے او رلعان کیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (دونوں میاں بیوی کو مخاطب کرکے) فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم دونوں میں سے ایک ضروری جھوٹا ہے، کیا تم میں سے کوئی ایک (جو جھوٹا ہے) توبہ کرتا ہے؟‘‘ کس نے تو بہ نہ کی اور عورت (لعان کے لئے) کھڑی ہوگئی۔ اس نے چارمرتبہ گواہی دی (کہ مرد جھوٹا ہے) اور پانچویں مرتبہ گواہی دینے لگی تو لوگوں نے اسے روکا کہ پا نچویں گواہی (اللہ کے غضب کو) واجب کرنے والی ہے۔ (لہٰذا اچھی طرح سوچ لو) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں عورت رک گئی اور ہچکچانے لگی، ہم نے گمان کیا کہ وہ (اپنے گناہ) کا اعتراف کرلے گی، لیکن اس نے کہا ’’میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لئے رسوا کرنا نہیں چاہتی ۔‘‘ اور پانچویں گواہی دے دی (یعنی اگر مرد سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اس کا دھیان رکھنا ، اگر اس کے ہاں سرمگیں آنکھوں والا ، موٹی پیٹھ والا اور بھری بھری پنڈلیوں والا بچہ ہوا تو شریک کا ہوگا ۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا (بچہ کی پیدائش کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر اللہ کی کتاب کا قانون لعان نہ ہوتا تو میں (اس عورت پر) حد جاری کردیتا۔‘‘ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر117:لعان کے بعد پیدا ہونے والا بچہ باپ کی بجائے ماں سے منسوب کیا جائے گا۔