کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 30
ا لِّتَعْتَدُوْا} (231:2) ’’ یعنی یا تو بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو محض ستانے کے لئے انہیں نہ روکو تاکہ ان پر زیادتی کرو۔‘‘(سورہ بقرہ ،آیت نمبر231)جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بیوی سے رجوع کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کے ساتھ آئندہ حسن معاشرت کے ساتھ زندگی بسر کرو اس کے حقوق ادا کرو اسے عزت کے ساتھ شریفانہ طریقے سے گھر میں بساؤ اسے یہ احساس نہ ہو کہ اسے محض ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے یا اذیت اور نقصان پہنچانے کے لئے روکا گیا ہے اور اگر تم نے اسے الگ کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تب بھی اس کے خلاف شکایات یا الزامات کا دفتر کھول کے نہ بیٹھ جاؤ اس کی کمزوریوں اور خامیوں کی تشہیر نہ کرتے پھرو کہ آئندہ زندگی میں کوئی دوسرا مرد اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہ ہو بلکہ شریفانہ طریقے سے اسے رخصت کرو اسی مصلحت کے پیش نظر اسلام نے طلاق کے نفاذ کو کسی عدالت یا پنچایت وغیرہ کے ساتھ منسلک نہیں کیا بلکہ اس معاملے میں مرد کو مطلق اختیار دیا گیا ہے کہ جب وہ محسوس کرے بیوی کے ساتھ اس کی رفاقت ناممکن ہو چکی ہے تو قاعدے کے مطابق وہ جب چاہے طلاق دے سکتا ہے۔ یہی معاملہ خلع کا ہے اگر کوئی عورت خلع لینے کے لئے عدالت میں جاتی ہے تو عدالت کو صرف اس بات کا اطمینان حاصل کرنے کا اختیار ہے کہ واقعی عورت کو مرد کے ساتھ شدید نفرت ہے اگر یہ دونوں اکٹھے رہے تو حدود اللہ قائم نہیں رکھ سکیں گے لیکن عدالت کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ عورت سے خلع کے اسباب دریافت کرے کہ وہ مرد عورت جو ایک مدت تک ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کرتے رہے ہیں الگ ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر مجبور ہوجائیں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی خلع کے لئے اپنا مقدمہ پیش کیا اور بتایا کہ وہ اپنے شہر کو ناپسند کرتی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورت کو نصیحت کی اور شوہر کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا عورت نے قبول نہ کیا آپ نے اسے ایک کوڑے کرکٹ سے بھری ہوئی کوٹھڑی میں بند کردیا ایک رات قید رکھنے کے بعد نکالا اور پوچھا بتاؤ ’’رات کیسی گزری؟‘‘عورت نے کہا ’’خدا کی قسم!شوہر کے ہاں جانے کے بعد اتنی اچھی نیند مجھے کبھی نہیں آئی جتنی آج رات آئی ہے ۔‘‘یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شوہر کو حکم دیا کہ وہ بلا تاخیر اپنی بیوی کو الگ کردے۔‘‘ (ابن کثیر) اختلافات ،تنازعات ،انتقامی جذبات اور لڑائی جھگڑے کی دہلیز پر کھڑے ایک فریق کو حسن معاشرت کی یہ تعلیم ،احترام آدمیت کی ایسی بے نظیر مثال ہے جو دین اسلام کے منزل من اللہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔