کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 26
اسلام ،اعتدال کا مذہب: معاشرتی زندگی میں نکاح اور طلاق بڑی اہمیت کے حامل ہیں دیگر مذاہب میں دوسرے معاملات کی طرح نکاح اور طلاق کے معاملے میں بھی افراط و تفریط پائی جاتی ہے ۔عیسائیت کا ایک دور وہ تھا جب اس میں قانونی اور مذہبی طور پر طلاق کی اجازت نہ تھی گھر کے اندر مرد اور عورت کی زندگی خواہ جہنم زار ہی کیوں نہ بن جائے نہ مرد کو طلاق دینے کی اجازت تھی نہ ہی عورت الگ ہونے کے لئے کوئی چارہ جوئی کر سکتی تھی یہ ساری سختی اور شدت حضرت عیسی علیہ السلام کے اس قول کی وجہ سے تھی ’’جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے ۔‘‘(متی 6:19)جس کا مطلب طلاق کی حوصلہ شکنی کرنا تھا جیسا کہ اسلام میں بھی طلاق کو ’’بہت بڑا گناہ ‘‘کہا گیا ہے لیکن عیسایوں نے مذہبی معاملات میں افراط و تفریط کی جو روش اختیار کررکھی تھی اس کی بناء پر حضرت عیسی علیہ السلام کے مذکورہ قول کی بنیا دپر طلاق کو مکمل طور پر حرام قرار دے دیاگیا تھا اگر مرد اور عورت کی باہمی رفاقت کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہ گئی ہو تو آخری چارہ کار کے طور پر عیسائیوں کے ہاں قانون یہ تھا کہ مرد عورت ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں لیکن اس کے بعد نکاح ثانی نہ کریں ۔اس قانون کی بنیاد انجیل کا یہ حکم تھا ’’جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے علاوہ کسی اور سبب سے طلاق دے اور دوسرا نکاح کرے وہ زنا کرتا ہے ۔‘‘(متی9:19)یہ قانون بھی اگرچہ طلاق ہی کی حوصلہ شکنی کے لئے تھا لیکن اس کی غلط تاویل کرکے عیسائی علماء نے اسے پہلے قانون سے بھی زیادہ بدتر بنا دیا تھا اس قانون کا مطلب یہ تھا کہ علیحدگی کے بعد یا تو مرد و عورت دونوں عمر بھر راہب اور راہبہ (تارک الدنیا )بن کر رہیں یا پھر زنا اور بدکاری کا راستہ اختیار کریں لیکن نکاح ثانی ان کے لئے شجر ممنوعہ تھا۔ عیسائیت کا دوسرا دور یہ ہے جو پہلے دور کی بالکل ضد اور اس کا شدید ردعمل ہے جس میں اولًا صرف مرد کو ہی نہیں عورت کو بھی طلاق دینے کا مساوی حق حاصل ہے ۔ثانیًا مرد و عورت کا ایک دوسرے کو طلاق دینا اور دوسرا رفیق زندگی اختیار کرنا اتنا ہی سہل ہے جتنا لباس تبدیل کرنا سہل اورآسان ہے ۔ایک سروے کے مطابق صرف برطانیہ میں گزشتہ تین سال میں طلاق کی شرح میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے سویڈن میں ہونے والی نصف شادیوں کاانجام طلاق ہوتا ہے فن لینڈ میں طلاق کی شرح اٹھاون(58)فیصد ہے [1]امریکہ کی مردم شمار بیورو کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزانہ سات ہزار جوڑے نکاح کے بندھن میں باندھے جاتے ہیں جن میں سے تین ہزار تین سو (یعنی پچاس فیصد )میاں بیوی ایک دوسرے کو طلاق دے دیتے ہیں[2]
[1] ندائے ملت ،لاہور21فروری 1997ء (خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے) [2]  اردو نیوز ،جدہ ،19 دسمبر 1996ء