کتاب: طلاق کے مسائل - صفحہ 14
بنتے ہیں جبکہ غرور ،تکبر ،خودپسندی اور خود غرضی جیسے اوصاف ہمیشہ بدنامی،ذلت اور رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ ثالثًا : شادی کے بعد مرد کا بیوی کی طرف راغب ہونا،اس سے محبت کرنا،اس کے ساتھ گھر بار کے معاملات پر گفتگو و شنید کرنا ،مستقبل کے لئے سوچ بچار کرنا ایک قدرتی امر ہے جو مائیں گھر میں آنے والی اس تبدیلی کو ایک زندہ حقیقت سمجھ کر قبول کر لیتی ہیں وہ بڑی حد تک اس تنازعہ کی اذیت سے محفوظ رہتی ہیں لیکن جن گھروں میں میاں بیوی کا افراد خانہ کے سامنے ہمکلام ہونا یا افراد خانہ سے الگ یک جا بیٹھنا تک عیب سمجھا جاتا ہو ان گھروں میں بہت جلدی گھٹن اور کشیدگی کا ماحول پیدا ہو جاتاہے جو آہستہ آہستہ باہمی نفرت پیدا کردیتا ہے اس کے بعد والدین کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ اور طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تکلیف دہ تنازعہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا جائے تو پھر معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے ایسے گھروں میں ماؤں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ان کی اپنی بیٹی کو ایسی ہی معمولی باتوں کی وجہ سے طلاق ہوجائے تو ان کے دل پر کیا قیامت گزرے گی۔ یہ ہرگز نہ بھولیں کہ دنیا تو ہے ہی مکافات عمل کانام…اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے…کا قانون ہر لمحہ ہر جگہ روبہ عمل ہے ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آج کا بویا کل کاٹنا نہ پڑے ۔شرعًا بھی ماؤں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کے مطالبہ پر بہو کو دی گئی طلاق کا تمام تر وبال قیامت کے روز انہیں کے سر ہوگا اور دنیا میں ان کے اپنے ہی بیٹے کا گھر برباد ہوگا جس کے بعد مسائل اور مشکلات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو نہ صرف بیٹے کے لئے بلکہ خود والدین کے لئے بھی پریشانیوں کا باعث بنے گا خیر بھلائی اور عافیت کا راستہ یہی ہے کہ بہو کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اس کی کوتاہیوں اور لغزشوں سے اسی طرح صرف نظر کیا جائے جس طرح اپنی حقیقی بیٹیوں کی غلطیوںاور کوتاہیوں سے صرف نظر کیا جاتا ہے بہو کی خوبیوں کا اعتراف اسی طرح کھلے دل سے کیا جائے جس طرح اپنی حقیقی بیٹیوں کی خوبیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے ساس بہو تنازعہ کے تمام کردار اگر اس تنازعہ کو کم کرنے کی شعوری کوشش کریں اور اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس روایتی تنازعہ کی تلخی اور شدت میں کمی نہ آئے۔ مسنون طریقہ طلاق: نکاح اور طلاق کے مسائل جنہیں قرآن مجید میں ’’حدود اللہ‘‘(اللہ کی مقرر کردہ حدیں )کہا گیا ہے بیشتر لوگ ان سے لا علم ہیں اور اس وقت تک انہیں جاننے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے جب تک انہیں جاننے کی مجبوری نہ بن جائے ،طلاق کی نوبت تو ہمیشہ لڑائی جھگڑوں کے بعد ہی پیش آتی ہے جو دن رات کا چین اور سکون ختم کر دیتے ہیں لیکن طلاق کے مسائل سے لاعلمی ان