کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 6
دیباچہ اسلام میں ہنسی مذاق کی حدود از: ڈاکٹر یوسف القرضاوی ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں اور جانور نہیں ہنستے ہیں۔ کیوں کہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ہنسی کی بات سمجھ میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھ داری جانوروں میں نہیں ہوتی ہے۔ چوں کہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے فطری عمل پر روک لگائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام ہر اس عمل کو خوش آمدید کہتا ہے جو زندگی کو ہشاش بشاش بنانے میں مددگار ثابت ہو، اسلام یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پیروکار کی شخصیت بارونق، ہشاش بشاش اور تروتازہ ہو۔ مرجھائی ہوئی بے رونق اور پژمردہ شخصیت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ اس اسلامی شخصیت کا نمونہ دیکھنا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نمونہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا مطالعہ کرنے والا بخوبی جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گونا گوں دعوتی مسائل اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود ہمیشہ مسکراتے اور خوش رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ اپنے ساتھیوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کے ساتھ بالکل فطری انداز میں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خوشی، کھیل اور ہنسی مذاق کی باتوں میں شرکت فرماتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کے غموں اور پریشانیوں میں شریک رہتے تھے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں