کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 4
اس کا اچھا اور براہونا اس کے اچھے یا برے استعمال یا عدم استعمال یعنی دولت پرستی اور بخل پر منحصر ہے ۔ہمیں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ فاضلہ دولت کے مفاسد اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں ۔جبھی تو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متعدد بار فرمادیا ہے کہ ﴿اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ﴾لیکن سرمایہ داری کی فضاؤں میں پلاہوا آج کامسلمان اس بات کی طرف مطلق توجہ نہیں دیتا۔ زیادہ سے زیادہ اسے بس ایک ہی سبق یاد ہے اور وہ یہ کہ سال کے بعد زکوٰۃ اداکرو۔اس میں بھی حیلوں بہانوں سے جس قدر کمی ہوسکتی ہے یا گنجائش نکل سکتی ہے اس سے فائدہ اٹھالو‘ باقی مال پاک او رطیب ہے ۔پھر سارا سال انفاق فی سبیل اللہ کی چنداں ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ۔ اس سبق نے اسے دولت سے محبت کرنے اور اسے جمع کرنے کے کئی طریقے سکھا دئیے ہیں جس سے اس میں سرمایہ داری اور سرمایہ پرستی کے تمام مفاسد اور اخلاقِ رذیلہ پیدا ہوگئے ہیں ۔ جاگیرداری چونکہ افزائش دولت میں نمایاں کردار اداکرتی ہے ۔لہٰذا اسلام زمین کے کرایہ کو بھی مستحسن نہیں سمجھتابلکہ بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمان اپنی زمین یا تو خود کاشت کرے ورنہ اپنے کسی دوسرے بھائی کو کچھ معاوضہ لیے بغیر مفت کاشت کرنے کو دے دے ۔اور جوازِ مزارعت کا باب یوں کھلتاہے کہ کاشتکاری تو صرف تنومند انسان ہی کرسکتاہے جبکہ زمین کے مالک ازروئے قانونِ وراثت بچے بھی ہوسکتے ہیں ‘بوڑھے بھی ‘ عورتیں بھی اور معذور وناتواں بھی۔ اور یہ لوگ ضرورت مند بھی ہوسکتے ہیں۔ انہیں اس بات کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زمین کرایہ پر یا بٹائی پردے کراپنا پیٹ پال سکیں ۔ لہٰذا اگر عدم جواز مزارعت کو قانون کا درجہ دیا جائے تو یہ قانون کسی دور میں بھی زمانہ کے ساتھ چل نہیں سکتا اور یہ بات اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس مختصر سے کتابچہ میں فریقین کے دلائل کاکتا ب وسنت کی روشنی میں موازنہ کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ فاضلہ دولت اگر جائز ہے تو کن شرائط کے تحت جائز ہے او ر مزارعت کن حالات میں جائزہوتی ہے اور کن میں ناجائز؟یعنی مزارعت کے جائز او ر ناجائز ہونے کی کیا کیا مختلف صورتیں ہیں ۔اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ دولت مند یا زمیندار مسلمان یہ معلوم کرسکے گا کہ وہ اسلامی نقطہ نظر سے کس مقام پرکھڑا ہے ؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دولت کی محبت اور اس کے شرسے محفوظ رکھے ۔ اوراگر اللہ تعالیٰ ہمیں جائزذرائع سے دولت سے نوازے تو پھر ہم اسے خیر ہی سمجھیں اور اس کا شکریہ بھی ادا کریں ۔ پھر اللہ تعالیٰ ہمیں اس دولت کو خیر ہی کے کاموںمیں خرچ کرنے کی توفیق بھی عطافرمائے تاکہ یہ دولت ہمارے لیے وبالِ جان بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث ہو ۔آمین ثم آمین ۔ عبد الرحمان کیلانی ۔دارالسلام وسن پورہ لاہور۔۱۹۸۸۔۸۔۱۵