کتاب: اسلام اور مستشرقین - صفحہ 92
ہوئے گولڈ زیہر، شاخت اور مارگولیتھ David Samuel Margoliouth کے نظریات کا علمی محاکمہ کیا ہے ۔ انہوں نے یہ مقالہ ۱۹۶۶ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے مکمل کیا۔ اسی طرح جوزف شاخت کے حدیث کے بارے میںنظریات کا انہوں نے پُرزور رد اپنی کتاب "On Schacht's Origins of Muhammadan Jurisprudence" میں کیا ہے۔ 3.تیسرے مرحلے کے نمایاں مستشرقین میں جیوئن بال G.H.A. Juynboll اور جرمن مستشرق ہاہائیڈ موٹسکی Harald Motzkiہیں۔ جیوئن بال اگرچہ شاخت سے متاثر ہے لیکن وہ حدیث کے بارے میںاُس کے انتہائی تشکیک پسندانہ رویے سے متفق نہیں ہے۔ وہ جوزف شاخت کے نقطہ نظر کو کچھ تنقیح کے بعد قبول کرتا نظر آتا ہے۔ اس نے شاخت کی حدیث کے بارے میں 'Common Link Theory'کو مہذب (refine)کیا ہے۔ شاخت کے نزدیک حدیث کی اسناد دوسری صدی ہجری کے نصف ثانی میں وضع (create)کی گئیں تو جیوئن بال کے نزدیک حدیث کا مرجع (source) پہلی صدی ہجری کا آخر ہے۔ ہاہائیڈ نے پہلی صدی ہجری کی احادیث کی سند کا ماخذ معلوم کرنے کے لیے tradition-historical کا اصول استعمال کیا۔4 4.چوتھے مرحلہ کے نمایاں لوگوں میں مائیکل کوکMichael Allan Cook (۱۹۴۰ء پیدائش) اور نورمن کولڈر Norman Calder )۱۹۵۰۔۱۹۹۸ء) کا نام ملتا ہے۔ یہ دونوں گولڈ زیہر اور جوزف شاخت سے بھی زیادہ تشکیک پسند ہیں۔ 5 گولڈ زیہر (Ignaz Goldziher) اگناس گولڈ زیہر Ignaz Goldziher (۱۸۵۰۔۱۹۲۱ء) ہنگرین یہودی مستشرق ہے۔ یورپ میں نولڈیکے کی طرح اسے بھی جدید علوم اسلامیہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ نولڈیکے جس طرح قرآنیات میں مستشرقین کا امام ہے تو بالکل اسی طرح گولڈ زیہر کو علوم حدیث میں مستشرقین کی پیشوائی کا مقام حاصل ہے۔ گولڈ زیہر ہی وہ پہلا مستشرق ہے جس نے حدیث پر باقاعدہ نقد کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر جامع، منظم اور محقق انداز میں