کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 6
تعلیم بھی دیتےتھےاوربندہ کوبھی جوکچھ حاصل ہواوہ صرف ان کی مرہون منت ہےاس طرح میرےاستادمولانادوست محمدلكهميراورمولاناگل محمدصاحب اورہمارےکلاس فیلومولاناعبدالرحیم لكهميرکوبھی جوکچھ حاصل ہواوہ بھی ان کےمرہون منت تھااورہمارےمدرسہ دارالرشادکوسندھ میں جومقام حاصل تھااوائل دورمیں شایدکسی اورمدرسہ کونہ تھااس لیےاس کافتویٰ بہت زیادہ نکلتاتھاکورٹ کامسئلہ ہویاکسی بڑےجاگیردارکی بیٹھک جہاں بھی اس مدرسہ کافتویٰ پہنچ گیاتوپھروہی فیصلہ ہوتاتھا۔کوئی کورٹ یابڑاآدمی اس کوردکرنےکی جرات نہ کرتاتھاکیونکہ وہ جانتےتھےکہ یہاں کادیاہوافتویٰ حرف آخرہوتاتھاکیونکہ وہ فتویٰ قرآن وحدیث پرمبنی ہوتاتھااورنہ کوئی فتویٰ کی فیس وغیرہ ہوتی تھی اورنہ کسی بڑےکی لڑائی اس میں اثراندازہوسکتی تھی اگرصرف خالص قراآن وحدیث سےفتویٰ لیناہوتووہ وہاں سےہی مل سکتاہے۔ ہمارےاستادمولانادوست محمد لكهميرصاحب پہلےفتویٰ لکھتےتھےپھروالدصاحب رحمہ اللہ اس کودیکھ کراس کی تصحیح فرماتےپھراس پراپنےدستخط تحریرفرماتےاوروالدماجدرحمہ اللہ کی رہنمائی میں(مولانادوست محمدرحمہ اللہ)انھوں نےفتویٰ دینےکےلیےکچھ کتابیں بھی منتخب کرلی تھیں جن کودیکھ کروہ فتویٰ لکھتےتھے۔کتابوں کےنام یہ تھے: (1) فتاویٰ نذیریہ(محدث نذیرحسین دہلوی) (2)سراجی (3)المحلیٰ لابن حزم وغیرہم۔ اکثرفتاوئےوہ ان کتابوں سےاخذکرتےتھےاورکبھی کبھی ایسابھی ہوجاتاتھاکہ پہلےفتویٰ کسی ایک تحقیق پردیالیکن بعدمیں جب دوبارہ تحقیق کی تواس کےخلاف دیاجیسےمسئلہ شغارکےبارےمیں وغیرہ اورلوگوں کےفیصلےبھی بہت آتےتھے(اوروہ ساراسلسلہ اب بھی بحمداللہ سبحانہ وتعالیٰ احسن طریقہ سےجاری ہے)اورمولانادوست محمدبھی بیٹھتےتھے،پھردونوں فریقین کی موجودگی میں فیصلہ کیاجاتاتھا۔ دونوں کاموقف اچھی طرح