کتاب: دنیوی مصائب و مشکلات حقیقت ، اسباب ، ثمرات - صفحہ 45
دنیا میں عیش کوشی کرنے اور تنگدستی میں زندگی گزارنے والوں کی نظر سے، جہنّم کی شدّتوں اور جنّت کی نعمتوں کا اندازہ اس سلسلہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یُوْتٰی بِاَ نْعَمِ اَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ النَّاِر یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،فَیُصْبَغُ فِیْ النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ:یَا ابْنَ آدَمَ! ھَلْ رَأَیْتَ خَیْراً قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ:لَاوَاللّٰہِ! یَارَبِّ۔وَیُوْتٰی بِاَشَدِّ النَّاسِ بُؤْساً فِیْ الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِیْ الْجَنَّۃِ،فَیُقَالُ لَہ‘:یَاابْنَ آدَمَ! ھَلْ رَاَیْتَ بُؤْساً قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّبِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ:لَا،وَاللّٰہِ! یَارَبِّ! مَا مَرَّبِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَاَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ )) [1] ’’جہنم کے مستحق لوگوں میں سے ایک شخص جو اس دنیا میں خوب عیش وخوشی کی زندگی بسر کرچکا ہوگا ،قیامت کے دن اس کوصرف ایک مرتبہ جہنم کی آگ میں ڈبویاجائے گا اور پوچھا جائے گا:اے ابنِ آدم!کیا تم نے کوئی بھلائی پائی؟ کیا تم نے کوئی رحمت حاصل کی؟وہ کہے گا:اللہ کی قسم !نہیں ،اے میرے رب!
[1] صحیح مسلم ۴؍۲۱۶۲،حدیث:۲۸۰۷،نسائی،ابن ماجہ،مسنداحمد ۳؍۲۵۳،بیہقی ۱۰؍۴۱،صحیح الجامع ۲؍۱۳۲۶،حدیث:۷۰۰۰ ،سلسلہ الاحادیث الصحیحہ ۳؍۱۵۵،حدیث ۱۱۶۷