کتاب: دنیوی مصائب و مشکلات حقیقت ، اسباب ، ثمرات - صفحہ 38
جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: {وَاَیُّوْبَ اِذْنَادٰی رَبَّہٓ‘ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ} (سورۃ الانبیآء:۸۳) ’’ایوب(علیہ السلام ) کی حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھےیہ بیماری لگ گئی ہے اور تورحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ انکی دعاء وپکار کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَاسْتَجَبْنَا لَہ‘ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرِّوَاَتَیْنٰہُ اَھْلَہ‘ وَ مِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ} (سورۃ الانبیاء:۸۴) ’’تو ہم نے انکی دعاء سن لی اور جو دکھ انہیں تھا ،اسے دور کردیا اور انھیں اہل وعیال عطا فرمائے، بلکہ اپنی خاص مہربانی سے اتنا ہی اور بھی دیا تاکہ سچے بندوں کیلئے یہ باعث ِ نصیحت ہو۔‘‘ قرآن صاف بیان کررہا ہے کہ جو لوگ مرچکے ہیں وہ کسی زندہ کی مدد نہیں کرسکتے۔لہٰذاجو کوئی مُردوں کو پکارتا ہے ، وہ خسارے میں ہے۔اسکے علاوہ،اللہ کے سواء دوسروں سے دعاء کرنا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرناہے ،جو کہ سب سے بڑا جرم وگناہ ہے،کیونکہ دعاء بھی ایک عبادت ہے،اور وہ صرف اللہ ہی کاحق ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ} (سورۃ المؤمن:۶۰) ’’اور تمہارے رب کا فرمان(صادرہوچکا) ہے کہ مجھ سے دعا ء کرو ،میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرو ں گا،یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں ،