کتاب: دنیوی مصائب و مشکلات حقیقت ، اسباب ، ثمرات - صفحہ 32
کی علامت ہے اوراُس پر بھروسے کی کمی کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی اپنی پریشانی یا مصیبت کسی خاص آدمی جیسے قریبی دوستوں وغیرہ کے سامنے بیان کرسکتا ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیلئے گئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بخارکومحسوس کیا۔اور عرض کیا: آپ کوتو شدید بخار ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَجَلْ! اِنِّیْ اُوْعَکُ کَمَا یُوْعَکُ رَجُلَانِ مِنْکُمْ)) [1] ’’ہاں ! میں بخار میں اتنا مبتلا ہوں جتنا تم میں سے کوئی دو آدمی مبتلا ہوتے ہیں ۔‘‘ دنیوی مصائب کا دوسرا پہلو! سابقہ سطور سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ دنیوی مصائب ومشکلات ایک امتحان ہیں ،ان میں بندے کو چاہیئے کہ وہ صبر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے۔اس کے علاوہ بعض مصیبتیں اور مشکلات ایسی بھی ہوتی ہیں جو مؤمن کے گناہوں اور بدعمالیوں کے نتیجہ میں آتی ہیں ۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے۔اور بدعمالیوں کو چھوڑنے کی تنبیہہ ہے۔تاکہبندہ اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ {وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ} (سورۃ الشوریٰ:۳۰) ’’تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہیں ۔‘‘ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ دنیوی مصائب ومشکلات کی اس نوعیت کو اچھی طرح
[1] صحیح بخاری ومسلم بحوالہ صحیح الترغیب ۳؍۳۴۰