کتاب: دنیوی مصائب و مشکلات حقیقت ، اسباب ، ثمرات - صفحہ 27
ناپا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَ ھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ} (سورۃ الزمر:۱۰) ’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا (بے شمار) اجر دیا جاتا ہے۔‘‘ وہ حقیقی صبرجس پر اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کے اجر دینے کا وعدہ کیا ہے،وہ ہے جومصیبتوں کے شروع ہوتے وقت کیا جائے کہ مصیبت آتے وقت اس کی خبر سنتا ہے اوردل کے غمگین ہونے کے باوجود،نہ وہ ناامید ہوتا ہے اور نہ خوف میں مبتلا ہوتا ہے،بلکہ وہ صبراختیار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پرمطمئن ہوجاتا ہے۔پہلے جھٹکے کے بعد والا صبر جبکہ غم میں کمی آچکی ہو وہ حقیقی صبر نہیں ہے،کیونکہ صبر کی حقیقی آزمائش تب ہے جب آدمی مصیبت سے رنجیدہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ الصَّبْرَ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی)) [1] ’’واقعی صبر صرف وہ ہے جو صدمہ کے آغاز پر کیا جائے۔‘‘ ہر شخص کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی صبر کا مظاہرہ کرنا ہی پڑتا ہے!سمجھدار شخص وہ ہے جو چاہتے ہوئے صبر کو اختیار کرے اور وہ بھی شروع ہی سے۔کیونکہ صبر کے فائدوں کو وہ سمجھتا ہے۔اُس کو اس کا بھی علم ہے کہ صبر کرنے پر اسے جزا ملے گی اوربے صبری میں مبتلا ہوگا تو نکت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا شکار ہوگا۔وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ بے صبراشخص غمگین ہونے سے نہ کھویا ہوا موقعہ واپس لاسکتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کوبدل سکتا ہے۔اس کے برعکس بے
[1] صحیح بخاری ومسلم،سنن اربعہ،مسنداحمد، صحیح الجامع ۱؍۳۴۱،حدیث:۱۶۶۱،۲؍۷۱۷ حدیث:۳۸۵۷