کتاب: دنیوی مصائب و مشکلات حقیقت ، اسباب ، ثمرات - صفحہ 13
سکے اور صبر کرنے والا بن جائے۔اِس کے بعد اُس پر حرام ہے کہ وہ بے صبری کا مظاہرہ کرے،یا انتہائی جوش و غصہ کا مظاہرہ کرے،یا ایسی کوئی حرکت کرے یا بات کہے جس سے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر ناپسندیدگی ظاہر ہورہی ہو،جیساکہ لمبی دردناک چیخ،کپڑوں کا پھاڑنا،گال پیٹنا وغیرہ۔ جزا کے دنبندے سے اس کی ہر اُس حرکت پرپوچھ گچھ ہوگی جس سے منع کیا گیا تھا اور اس سے بچنے کی بندے میں استطاعت تھی۔امام بخاری رحمہ اللہ ومسلم رحمہ اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ بَرِیٌٔ مِنَ الصَّالِقَۃِ وَالْحَالِقَۃِوَالشَّاقَّۃِ)) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بَین کرنے والی،سرمنڈوانے والی اورکپڑے پھاڑنےوالی عورت سے بریٔ ہیں ۔‘‘ ہر اس طرح کے عمل کو علماء کرام نے بالاجماع حرام قرار دیا ہے۔(یعنی کسی مصیبت کے وقت یا کسی عزیز کی موت پر اس طرح کی حرکت کرنے والوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے براء ت کا اظہار کیا ہے۔مترجم)پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی حرکات پرسزا نہیں دیتاجو اسکے اختیار میں نہ ہوں ۔مثال کے طور پرکسی کواپنے آنسؤں اور اپنے دل کے جذبات پر قابو نہ ہو۔ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے کسی عزیز کے چلے جانے سے یاکسی چیزکے کھوجانے سے، جس سے وہ محبت کرتا ہو،بہت زیادہ غمگین اور دکھی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے آنسؤں اور دل کے دکھوں کو صحیح طریقہ سے ظاہر کرنے پر انہیں سزا نہیں دیتا۔مگر بندے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ دماغ سے گزرنے والی ہر برائی کو ناپسند کرے اور زبان کو ایسی ہر بات کہنے سے روکے رکھے، جس سے
[1] بخاری ۳؍۱۳۲ تعلیقاً،مسلم،حدیث نمبر:۱۰۴،ابوداؤد،حدیث نمبر:۳۱۳۰،نسائی ۴؍۲۰