کتاب: دین کے تین اہم اصول مع مختصر مسائل نماز - صفحہ 38
کو ئی عذر نہ باقی رہے ۔‘‘ رسولوں میں سے پہلے رسول(نہ کہ پہلے نبی) حضرت نوح علیہ ا لسلام اور سب سے آخری رسول حضرت محمد ِمصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم ا لنبیین ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے پہلے رسول (نہ کہ پہلے نبی ) ہونے کی دلیل یہ ارشادِ الٰہی ہے : {اِنَّااَوْحَیْنَااِلَیْکَ کَمَااَوْحَیْنَااِ لٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ } (النساء :۱۶۳) ’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! )ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جسطرح نوح ( علیہ السلام )اور اُن کے بعدوالے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ۔‘‘[1] ہر امت کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک رسول بھیجے ہیں جو اپنے امتیوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتے اور طاغوت کی عبادت سے منع کرتے چلے آئے ہیں۔ اِس کی دلیل یہ ارشادِ الٰہی ہے : {وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًااَنِ اعْبُدُوُااللّٰہَ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوْتَ} (ا لنحل : ۳۶ ) ’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اُس کے ذریعے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ‘‘ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں (جنّ و انس ) پر طاغوت کا انکار و کفر اور ا للہ تعالی پر ایمان لانا فرض قراردیا ہے۔ امام ابن قیم رحمہ‘ اللہ ’’طاغوت ‘‘ کا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں :
[1] نبی اور رسول میں اہل ِ علم نے تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ دونوں درجات کو الگ الگ قرار دیا ہے۔ان علمی وتحقیقی بحثوں سے قطع نظر شیخ الاسلام نے جو لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے پہلے رسول ہونے کی دلیل مذکورہ آیت ہے۔اس پر اپنی تعلیقات میں معروف ازہری عالم شیخ محمد منیر الدمشقی نے لکھا ہے: ’’اس آیت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول تھے،بلکہ اس میں تو اللہ تعالیٰ نے صرف یہ ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح آپ سے پہلے نوح علیہ السلام اور دیگر انبیاء مثلاً حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہماالسلام وغیرہ پر وحی نازل کی تھی۔اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے بعض رسولوں کے قصّے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کیلیے قرآنِ کریم میں بیان فرمادیئے ہیں اوربعض کے بیان نہیں کئے۔اور پھر ابن مردویہ کی بیان کردہ ایک حدیث ذکر کی ہے جسمیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا ذکر آیا ہے۔(تعلیقات علّامہ محمد منیر الدمشقی علی الاصول الثلاثہ،ص۲۴،طبع مؤسسۃ الحرمین الخیریہ ودارالقاسم الریاض)جبکہ اس حدیث کو اگرچہ امام ابن حبان نے اشارۃً صحیح کہا ہے۔لیکن علّامہ ابن الجوزی نے اسے اپنی موضوعات(من گھڑت احادیث کے مجموعے) میں ذکر کیا ہے۔(تفسیر ابن کثیر۱/۷۷۹) اور بعض صحیح احادیث سے بھی شیخ الاسلام کی بات کی ہی تائید ہوتی ہے،چناچہ ارشادِ نبوی ہے: ((اَوَّلُ نَبِیٍّ اُرْسِلَ نُوْحٌ))’’سب سے پہلے جس نبی کو رسالت دی گئی وہ(حضرت) نوح(رضی اللہ عنہ ) ہیں۔‘‘ (ابن عساکر،مسند الفردوس دیلمی،صحیح الجامع:۲۵۸۵،الصحیحہ:۱۲۸۹) اور شفاعتِ کبریٰ والی معروف وطویل حدیث میں بھی ہے کہ لوگوں کاوفد حضرت نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جائے گا اور ان سے کہے گا: ((یَا نُوْحُ ! اَنْتَ اَوَّلُ الرَّسُلِ اِلٰی الْاَرْضِ۔۔۔)) ’’اے نوح(رضی اللہ عنہ !)آپ زمین پر پہلے رسول تھے۔‘‘(صحیح مسلم ۱/۳۲۷،ترمذی:۲۴۳۶) پہلی حدیث کی سند میں ضُعف ہے،مگر دوسرے شاہد کی وجہ سے علّامہ البانی نے صحیح الجامع اور الصحیحۃ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔(ابوعدنان)