کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 86
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا، وہ واضح طور پر نمودار ہوا، کیونکہ ان [اہل فارس] میں حدیث کے حفاظ اور اس کا اہتمام کرنے والے ایسے مشاہیر پائے گئے، کہ کم ہی ان ایسے دوسرے لوگوں میں گزرے ہیں۔[1] ج: اہل مصر کی دعوتِ دین پہنچانے میں شرکت کی بشارت: اس بارے میں درج ذیل دو روایات ملاحظہ فرمائیے: ا: امام طبرانی نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَوْصَی عِنْدَ وَفَاتِہٗ، فَقَالَ: ’’اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِيْ قِبْطِ مِصْرَ، فَإِنَّکُمْ سَتَظْھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ، وَیَکُوْنُوْنَ لَکُمْ عُدَّۃً وَأَعْوَانًا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘[2] [’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت وصیت کرتے ہوئے فرمایا: مصر کے قبطیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، کیونکہ تم ان پر غالب آؤ گے اور وہ تمہارے لیے کمک اور معاونین ہوں گے۔‘‘] ب: امام ابویعلی نے ابوعبد الرحمن حبلی، عمرو بن حریث اور ان کے علاوہ دیگر رضی اللہ عنہم سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّکُمْ سَتَقْدِمُوْنَ عَلٰی قَوْمٍ جُعْدٍ رُؤُوْسُہُمْ، فَاسْتَوْصُوْا بِہِمْ
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۸/۶۴۳؛ نیز ملاحظہ ہو: المفہم ۶/۵۰۶۔ [2] مجمع الزوائد، کتاب المناقب، باب ما جاء في مصر وأھلہا، ۱۰/۶۳۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں، کہ اس کو طبرانی نے رویت کیا ہے اور اس کے [راویان صحیح کے روایت کرنے والے] ہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱۰/۶۳)۔