کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 70
[’’پس یقینا میں انبیاء میں سے آخری [نبی] ہوں اور بے شک وہ (یعنی مسجد نبوی) آخری مسجد ہے۔‘‘[1]] و: امام احمد نے حضرت سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ) سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں [یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ] کو بعض غزوات میں اپنے پیچھے (مدینہ طیبہ میں ) چھوڑا، تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑ رہے ہیں؟‘‘ (تو) میں نے (اس موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’یَا عَلِيُّ! أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ إِلَّا أَنَّہُ لَا نُبُوَّۃَ بَعْدِيْ۔‘‘[2] [اے علی! رضی اللہ عنہ کیا تم اس پر راضی نہیں، کہ میرے پیچھے تمہاری حیثیت وہی ہو، جو موسیٰ کے پیچھے ہارون علیہما السلام کی تھی؟ [3] ہاں یقینا میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘]
[1] یعنی تین عظمت والی مساجد میں سے یہ تیسری ہے یا حضرات انبیاء علیہم السلام کی تعمیر کردہ مساجد میں سے آخری تعمیر ہونے والی مسجد ہے یا (روز قیامت) یہ مسجد سب مساجد کے بعد ختم ہوگی۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ (ملاحظہ ہو: ھامش السندي ۲/۳۵)۔ [2] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۶۰۸، ۳/۹۷۔ شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳/۹۷)۔ قریباً انہی الفاظ کے ساتھ یہ حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بھی روایت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: رقم الحدیث ۱۴۶۳۸، ۲۳/۹)۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۲۳/۹)۔ [3] یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے کوہِ طور پر جانے کے بعد باقی ماندہ لوگوں میں حضرت ہارون علیہ السلام ان کے جانشین تھے، اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ کے لیے تشریف لے جانے کے بعد مدینہ طیبہ میں باقی ماندہ لوگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین تھے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔