کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 68
مال غنیمت کو حلال کیا گیا، میرے لیے زمین کو پاک اور مسجد بنایا گیا، مجھے تمام مخلوق کے لیے مبعوث کیا گیا اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کیا گیا۔‘‘] د: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِنَّ مَثَلِيْ وَمَثَلَ الْأَنْبِیَائَ قَبْلِيْ کَمَثِلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍفِيْ زَاوِیَۃٍ۔ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ، وَیَقُوْلُوْنَ: ’’ھَلَّا وُضِعَتِ اَللَّبِنَۃ؟‘‘ قَالَ: ’’فَأَنَا اللَّبِنَۃُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔‘‘[1] [’’بے شک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس کو (خوب) اچھا اور آراستہ پیراستہ کیا ہو، لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوٹ گئی ہو)۔ اب لوگ اس کو (چاروں طرف سے) گھوم کر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، (لیکن یہ بھی) کہتے ہیں: ’’یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پس میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النّبیین ہوں۔‘‘] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث شریف میں انبیاء علیہم السلام اور جس چیز کے ساتھ انہیں مبعوث کیا گیا ہے، کو ایک گھر سے تشبیہ دی ہے، جس کی بنیادیں رکھی جاچکی ہیں، اور جس کی عمارت کو بلند کیا جاچکا ہے، البتہ اس میں ایک ایسی چیز چھوڑی گئی ہے، جس پر اس عمارت کی درستگی کا دارومدار ہے اور وہ چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس حدیث کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب المناقب، رقم الحدیث ۳۵۳۵، ۶/۵۵۸؛ وصحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم الحدیث ۲۲۔(۲۲۸۶)، ۴/۱۷۹۱۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔