کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 62
(بھی) ہے۔‘‘[1] علامہ شوکانی (وَ لَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کرنے والوں میں سے پہلے نہ ہوجاؤ۔‘‘[2] ب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ئَأَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اہْتَدَوْاج وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُط وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ} [3] [آپ اہل کتاب اور (عرب کے) ان پڑھ لوگوں سے کہہ دیجیئے: کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟ پس اگر وہ مسلمان ہوجائیں، تو انہوں نے ہدایت پالی اور اگر انہوں نے منہ موڑ لیا، تو آپ کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کو خوب دیکھنے والے ہیں]۔ علامہ شوکانی آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’قولہ: (ئَأَسْلَمْتُمْ): اِسْتِفْہَامٌ تَقْرِیْرِیٌ یَتَضَمَّنُ الْأَمْرَ: أي أسْلِمُوْا، کَذَا قَالَہُ ابْنُ جَرِیْرٍ وَغَیْرُہُ‘‘[4] ’’ابن جریر (الطبری) اور دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے، کہ ارشاد (ربانی) [کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟] استفہام تقریری ہے، جس میں حکم ہے، یعنی تم مسلمان ہوجاؤ۔‘‘ حافظ ابن کثیر اس آیت شریفہ کے متعلق لکھتے ہیں:
[1] تفسیر الطبري ۱/۵۶۱۔ [2] فتح القدیر ۱/۱۲۰۔ [3] سورۃ آل عمران / جزء من الآیۃ ۲۰۔ [4] فتح القدیر ۱/۴۹۲؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۶/۲۸۱۔