کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 227
قاضی بیضاوی اور قاضی ابوسعود کے بقول مشرق و مغرب میں تمام شہروں اور دیہاتوں والے اس سے مراد ہیں۔[1] مذکورہ بالا اقوال کا خلاصہ اور نچوڑ یہ ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ اور اس کے گردوپیش پوری دنیا کے لوگوں کو ڈرائیں۔ شبہ کرنے والے حضرات سے سوال ہے، کہ کیا آپ لوگ اس آیت کریمہ کو زیادہ سمجھتے ہیں یا وہ لوگ جنہوں نے اپنی پوری زندگیاں قرآن کریم کے سمجھنے سمجھانے کے لیے وقف کر رکھی تھیں، جن کی راتیں قرآنِ کریم کی تلاوت اور تدبر میں بسر ہوتیں اور دن اس کی تعلیم و اشاعت میں گزرتے؟ کیا آپ لوگ اس آیت کریمہ کو زیادہ سمجھتے ہیں یا وہ جن کے لیے لسانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب ذوالجلال سے دعا کی: ’’اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ۔‘‘[2] [اے اللہ! اس کو کتاب [یعنی قرآن کریم] سکھلا دیجیئے۔‘‘ اور امت نے انہیں ترجمان القرآن کا لقب دیا؟ ۳: اس شبہ کے اٹھانے والے حضرات سے پوچھئے، کہ آیا زیر بحث موضوع کے متعلق سارے قرآن کریم اور ذخیرہ احادیث میں صرف یہ تین آیات ہی ہیں؟ ان کی نگاہیں ان آیات شریفہ کو کیوں نہیں دیکھ رہیں، جن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، کہ قرآن کریم سب جہانوں کے لیے نصیحت ہے؟ ان کی نظروں سے وہ آیات کیوں اوجھل ہوگئی ہیں، جن میں تمام بنی نوع انسان کو دعوتِ اسلام دی گئی ہے؟
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوی ۱/۳۱۱؛ وتفسیر أبي السعود ۳/۱۶۳۔ [2] صحیح البخاري، کتاب العلم، باب قول النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم : ’’اللہم علمہ الکتاب‘‘ ، جزء من رقم الحدیث ۷۵، ۱/۱۶۹۔