کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 224
علامہ عینی اس روایت سے معلوم ہونے والے احکام بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: اس میں یہ ہے، کہ عالم کا حاضرین کو سمجھانے اور ان کی بات سمجھنے کی غرض سے کسی دوسرے شخص سے مدد لینا۔[1] تیسری صورت کہ عجمی لوگ عربی زبان سیکھ کر قرآن و سنت کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں۔ الحمد للہ غیر عربی مسلمانوں نے اس میدان میں اس قدر محنت اور جدو جہد کی ، کہ تفسیر و حدیث، عربی زبان اور دیگر علوم اسلامیہ میں امامت کے منصب تک پہنچے اور عرب ان کے خوشہ چین ہوئے۔ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عربی ہونا، قرآن کریم کا عربی زبان میں ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا عربوں میں ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے صرف اہل عرب کے لیے ہونے کے دلیل نہیں بن سکتی اور نہ ہی پیغامِ اسلام کا عربی میں ہونا عجمی لوگوں کے اس کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ تھا اور نہ اب ہے۔ شبہ ۳: اسلام کی عالم گیریت کے خلاف بعض آیات سے استدلال: قرآن کریم کی بعض آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارِ نبوت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں، آپ کی قوم اور مکہ مکرمہ اور اس کے گردوپیش میں بسنے والے لوگوں میں محصور کردیا گیا ہے۔ ایک آیت شریفہ میں ہے: {وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ}[2] [اور اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے]۔ ایک دوسری آیت کریمہ میں ہے:
[1] ملاحظہ ہو: عمدۃ القاری ۱/۳۱۰۔ [2] سورۃ الشعراء / الآیۃ ۲۱۴۔