کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 222
ایک صورت یہ ہے، کہ عرب مسلمان عجمی زبانیں سیکھیں اور پیغامِ اسلام غیر عرب لوگوں تک پہنچائیں۔ دوسری صورت یہ ہے، کہ عرب مسلمان مترجمین کے ذریعے سے دعوتِ اسلام عجمی لوگوں تک پہنچائیں۔ تیسری صورت یہ ہے، کہ عجمی لوگ عربی زبان سیکھیں۔ قرآن و سنت کو سمجھیں اور دوسروں کو سمجھائیں۔ الحمد للہ ان تینوں صورتوں کی وساطت سے دعوتِ اسلام کا کام صدیوں سے جاری ہے۔ پہلی صورت کا حکم تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ امام بخاری نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے: ’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَمَرَہُ أَنْ یَتَعَلَّمَ کِتَابَ الْیَہُوْدِ، حَتَّی کَتَبْتُ لِلنَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کُتَبَہُ، وَأَقْرَأْتُہُ کُتَبَہُمْ إِذَا کَتَبُوْا إِلَیْہِ۔‘‘[1] [’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا، کہ وہ یہودیوں کی تحریر
[1] صحیح البخاري، کتاب الأحکام، باب ترجمۃ الحکام…، رقم الحدیث ۷۱۹۵، ۱۳/۱۸۵۔۱۸۶۔ امام بخاری نے اس کو تعلیقاً روایت کیا ہے۔ [یعنی پوری سند کے بغیر]۔ البتہ حضرات ائمہ احمد، ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے پوری سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المسند، رقم الحدیث ۲۱۶۱۸، ۳۵/۴۹۰؛ وسنن أبي داود، کتاب العلم، باب روایۃ أھل الکتاب، رقم الحدیث ۳۶۴۰، ۱۰/۵۶؛ وجامع الترمذي، ابواب الاستیذان والأدب،باب فی تعلیم السریانیۃ ۷/۴۱۲۔ شیخ ارناؤط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [سند کو حسن]، شیخ البانی نے سنن ابی داود کی حدیث کو [حسن صحیح] اور امام ترمذی نے اپنی روایت کردہ حدیث کو [حسن صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳۵/۴۹۰؛ وصحیح سنن أبي داود ۲/۶۹۵؛ وجامع الترمذي ۷/۴۱۳)۔