کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 218
’’یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! إِنَّمَا ھُوَ أَمْرُ اللّٰہِ وَدِیْنُہُ، مَنْ حَفِظَہُ سَادَ، وَمَنْ ضَیَّعَہُ سَقَطَ۔‘‘ ’’اے امیر المؤمنین! یقینا یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم اور ان کا دین ہے، جس شخص نے اس کی حفاظت کی وہ سردار بن گیا اور جس نے اس کو ضائع کیا وہ گرگیا۔‘‘[1] مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے، کہ غیر عربوں نے اسلام کو صرف عربوں کا دین نہ سمجھا، بلکہ اپنا دین سمجھا اور اس کی اور اس کے علوم کی عظیم الشان خدمت کرکے سیادت و قیادت کے بلند مقام پر پہنچے۔ ۵: مذکورہ بالاشبہ کی حقیقت کی مزید نقاب کشائی کی خاطر دوفاضل مستشرقین کے اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: جرمن پروفیسر زخاؤ رقم طراز ہیں: پیغام الٰہی صرف عربوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ (تعالیٰ) کے احکام تمام کائنات کے لیے ہیں، لہٰذا تمام نوع انسان سے غیر مشروط اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ (تعالیٰ) کے رسول تھے، اس لیے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنے میں وہ حق بجانب تھے اور معلوم ہوتا ہے، کہ ان کا یہ موقف ابتدائے اسلام ہی سے ان کے مذہب کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔‘‘[2] ب: پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں: ’’ایک ایسی ساعت جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر یاس اور ناامیدی کے سیاہ بادل چھائے تھے اور اہل مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے سے بشدت
[1] مقدمہ ابن الصلاح، النوع الرابع والستون: معرفۃ الموالي من الرواۃ والعلماء ص۱۹۹۔ [2] فاضل جرمن پروفیسر کا یہ اقتباس پروفیسر آرنلڈ نے اپنی کتاب دعوت اسلام ص ۳۲ کے حاشیہ میں نقل کیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’گولڈ سیر اور پروفیسر نوئلڈیکہ نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ص ۳۷، حاشیہ ۱)۔