کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 211
افریقہ میں اقتدار اتنی ہی مدت رہا، جتنی مدت عربوں کا رہا ،لیکن ان کی زبانیں بربری زبان پر اپنا کوئی اثر نہ چھوڑ سکیں۔‘‘ [1] مشہور انگریزی مستشرق پروفیسر توماس آرنلڈ سپین کے عیسائیوں پر اسلام، عربی زبان اور عربی ثقافت کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: ’’اکثر عیسائیوں نے عربی نام رکھ لئے تھے اور ظاہری رسم و رواج میں بھی ایک حد تک اپنے مسلمان ہمسایوں کی تقلید کرتے تھے، مثلاً بہت سے عیسائی ختنہ کرتے تھے اور کھانے پینے کے معاملے میں بھی انہوں نے ان ’’کافروں‘‘[2]کی عادات اختیار کرلی تھیں، جنہوں نے اصطباغ[3] نہیں پایا تھا۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’عربی زبان نے بہت جلد لاطینی کی جگہ لے لی۔ نتیجہ یہ ہوا، کہ جس زبان میں عیسائیوں کا علم دین مدون تھا، اس کو عیسائی رفتہ رفتہ بھولنے لگے اور اس کی طرف سے غفلت کرنے لگے، حتیٰ کہ کلیسا کے بعض بلند مرتبہ عہدے دار بھی صحیح لاطینی سے ایسے نابلد ہوگئے، کہ ان پر اہل علم کو ہنسی آتی تھی۔‘‘ پھرپروفیسر آرنلڈ سپین کے ایک عیسائی مصنف کا اپنے ہم وطنوں سے شکوہ نقل کرتے ہیں، جس کا کچھ حصہ ذیل میں ہے:
[1] حضارۃ العرب ص ۳۰۵۔ [2] ان کی مراد اس سے مسلمان ہیں۔ [3] اصطباغ: عیسائی مذہب اختیار کرتے وقت سر پر پانی چھڑکنے کی رسم ادا کرنا۔ بپتسمہ۔ (فیروز اللغات ’’۱۔ص‘‘، ص ۶۸)۔