کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 210
ان کو لانے والے چھپ گئے، لیکن اس نے ان کو نہ چھوڑا۔‘‘ ڈاکٹر غوستاف لوبون مزید لکھتے ہیں: ’’عرب جس شدت سے مصر میں اثر انداز ہوئے، وہ جہاں بھی گئے مثلاً افریقہ، شام، ایران وغیرہ، اسی طرح اثر انداز ہوئے۔ ان کا اثر تو بلادہند میں پہنچا، جہاں وہ صرف راہ گزر کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے، ان کا اثر بلاد چین میں پہنچا، جہاں ان کی آمد صرف تجارت کی غرض سے تھی۔ ہم تاریخ میں کسی امت کو بھی عرب ایسی عظیم تاثیر والی نہیں دیکھتے۔ عربوں سے ملاقات کرنے والی تمام امتوں نے، اگرچہ ان کی ملاقات عربوں سے تھوڑے ہی عرصہ کے لیے ہوئی، ان کی ثقافت کو اپنالیا اور جب عرب منظر عالم سے غائب ہوئے، تو انہیں دبانے والے ہی ان کی روایات سے وابستہ ہوگئے اور انہی کو دنیا میں پھیلانے لگے۔ صورتِ حال (یقینا) ایسے ہی ہے، عربوں کی بالادستی تو صدیوں سے ختم ہوچکی ہے، لیکن آج بھی بحر اوقیانوس سے سندھ تک اور بحر متوسط سے صحرا تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے مذہب اور ان کی زبان کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔‘‘[1] ایک اور مقام پر ڈاکٹر غوستاف لوبون بربریوں کے متعلق رقم طراز ہیں: ’’جس طرح بربر عرب بن گئے، اس طرح ان کی زبان [بربری] بھی عربی زبان میں تبدیل ہوگئی۔ بڑے قبائل کے علاقے کے رہنے والوں کی [بربری] زبان کے ایک تہائی الفاظ عربی ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہمارے لیے ایک بار پھر عربوں کی عظیم تاثیر کو ثابت کرتی ہے، جو کہ کسی اور امت کو نصیب نہیں ہوئی۔ انہی امتوں میں یونانی اور رومی بھی ہیں، جن کا شمالی
[1] حضارۃ العرب صفحات ۶۷۲۔۶۷۳۔