کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 208
کہ وہ تمام دنیا کے لیے ہے اور یہ دعویٰ وہ ہے، جس کا قرآن (کریم) میں بار بار ذکر آیا ہے۔[1] کیا مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہنا قرین انصاف ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کل کائنات عرب تک محدود تھی اور اول سے آخر تک اہل عرب ہی کو دعوت دی گئی؟ ۴: ولیم میور لکھتے ہیں، کہ [یہ دین عرب ہی کے لیے مخصوص تھا]۔ اس بارے میں قارئین کی توجہ دو باتوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں: پھر اس دین میں دنیا و آخرت کا حسین امتزاج ہے۔ آخرت کی فکر کے نام پر لوگوں کو رہبانیت اور فرارِ دنیا کی ترغیب نہیں دی گئی اور دنیا کے سدھارنے کی آڑ میں خالق کائنات سے اعراض اور ان کی نافرمانی اور بغاوت پر اکسایا نہیں گیا۔ غریبوں کی ہمدردی کے نام پر لوگوں کے مال و متاع کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی گئی اور حقوق ملکیت اور آزادانہ مقابلہ کے دل فریب نعروں کے شور میں قلیل وسائل والے لوگوں کے خون چوسنے کے دروازوں کو نہیں کھولا گیا۔ حکمرانوں کو مطلق العنان بنا کر عوام کو غلام نہیں بنایا گیا اور شخصی آزادیوں کی آڑ میں سوسائٹی کے امن و سکون اور استقرار سے کھیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی۔
[1] ملاحظہ ہو: دعوت اسلام صفحات ۳۲۔۳۳، اس کے بعد فاضل مؤلف نے قرآن کریم کی اس بارے میں چھ آیات نقل کی ہیں۔