کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 206
[میں عاقب ہوں۔ اور عاقب سے مراد، کہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو]، [اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میرے زمانہ نبوت کو پاتے، تو وہ ضرور میری اتباع کرتے]، [میرے بارے میں علم ہونے کے باوجود مجھ پر ایمان نہ لانے والا ہر یہودی و نصرانی جہنمی ہوگا]، اور اسی طرح کے دیگر ارشادات کے بعد یہ کہنا درست ہے، کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں اگر یہ تصور تھا بھی، تو دھندلا تھا؟ III: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کرہ ارض پر اشاعت اسلام کے متعلق حضرات صحابہ کو بشارتیں دی: حیرہ میں اسلام پہنچنے کی خوش خبری دی، اہل فارس کے ایمان پانے کی نوید مسرت سنائی، اہل مصر کے دین اسلام قبول کرنے اور اس کو آگے پہنچانے کی بشارت دی، مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامیہ کے پہنچنے کا مژدہ سنایا، دنیا کے ہر گھر میں دین اسلام کے داخل ہونے نوید جان فزا دی۔[1] یہ اور اسی قسم کی دیگر بشارتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں اسلام کے عالم گیر مذہب ہونے کے تصور کے روزِ روشن کی طرح واضح ہونے پر دلالت کرتی ہیں یا دھندلا ہونے پر؟ فاعتبروا یا أولی الابصار۔[2] IV: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دعوتِ دین دینے کی غرض سے اپنے ہاں بلایا،
[1] ان کی تفصیل اور حوالہ جات اس کتاب کے مبحث اوّل میں گزر چکے ہیں۔ [2] اے آنکھوں والو! غور و فکر کرو۔