کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 198
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلوبِ استفہام استعمال فرمایا۔ تنہا خود ہی نہ بولتے رہے، بلکہ اس کو بھی شریک گفتگو کیا، تاکہ بتلائی جانے والی بات میں اس کی زیادہ سے زیادہ دلچسپی پیدا ہو۔ ۲: بات سمجھانے کی غرض سے مثال پیش فرمائی، تاکہ بات زیادہ واضح ہوجائے ۔ امام بخاری نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ مَنْ شَبَّہَ أَصْلًا مَعْلُوْمًا بِأَصْلٍ مُبَیَّنٍ، وَقَدْ بَیَّنَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم حُکْمَہُمَا لِیَفْہَمَ السَّائِلُ] [1] [اس بارے میں باب، کہ ایک امر معلوم کو دوسرے امر واضح سے تشبیہ دینا، تاکہ سائل سمجھ جائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا حکم بیان کرچکے ہوں] ۳: مثال کے چناؤ میں اعرابی کے حالات کا خیال رکھتے ہوئے اونٹوں کی مثال پیش فرمائی اور بدوؤں کے اونٹوں سے تعلق کو بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد موجود تمام لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دی جائے گی، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت کے بعد آنے والے تمام انسانوں کے لیے نبی اور رسول بنا کر مبعوث کیا گیا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحد استطاعت تمام قسم کے لوگوں کو دین حق کی دعوت دی۔ اسی بارے میں ڈاکٹر علی عبد الحلیم محمود لکھتے ہیں: تمام لوگوں کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے، کہ وہ تنہا اللہ تعالیٰ کی بغیر کسی قسم کے شرک کے عبادت کریں، ان کے ساتھ، ان کے فرشتوں، ان کی کتابوں اور ان کے رسولوں پر ایمان لائیں اور اس دین میں داخل ہوجائیں، جو (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا، تو وہ گناہ گار ہوں گے۔
[1] صحیح البخاري ۱۳/۲۹۶۔