کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 191
گھنے سائے والے درخت کے پاس آئے، تو ہم نے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص کردیا۔ پھر مشرکوں میں سے ایک شخص آیا اور اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار میان سے نکال لی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: ’’تم مجھ سے ڈرتے ہو۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ وہ کہنے لگا: ’’فَمَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّي؟‘‘ ’’سوتمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ۔‘‘[1] اور صحیح ابی بکر اسماعیلی کی روایت میں ہے: فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم السَّیْفَ، فَقَالَ: ’’مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّي؟‘‘ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار پکڑلی اور پوچھا: ’’تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ وہ کہنے لگا: ’’کُنْ خَیْرَ آخِذٍ۔‘‘ ’’آپ بہترین (تلوار) تھامنے والے بنئے۔‘‘
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب المغازي، غزوۃ ذات الرقاع، جزء من رقم الحدیث ۴۱۳۶، ۷/۴۶۶؛ وصحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب صلاۃ الخوف، جزء من رقم الحدیث ۳۱۱۔ (۸۴۲)، ۱/۷۵۶۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔