کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 184
۴: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی ترغیب دینے سے پیشتر اس ترغیب کا سبب بھی بیان فرمادیا۔ اس طرح ترغیب کی قبولیت کی توقع میں توفیق الٰہی سے اضافہ ہوتا ہے۔ صدقہ کی ترغیب اور بیان کردہ سبب میں شاید تعلق یہ ہے، کہ کاروبار میں جھوٹ اور جھوٹی یا زیادہ قسموں کی بنا پر طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے اور صدقہ دینے سے اس کی دوری کی اللہ تعالیٰ سے توقع ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوسرے ارشاد گرامی: ’’أتْبِع السَیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمحُھَا‘‘[1] برائی کے پیچھے نیکی لگا دو، وہ (نیکی) اس (برائی) کو مٹا دے گی۔‘‘ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اسی بارے میں علامہ طیبی لکھتے ہیں: ’’بسا اوقات گھٹیا گفتگو اور زیادہ قسمیں کھانے سے نفس میں تکدر پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کے ازالہ اور نفس کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی تکدر کے ازالہ اور نفس کی صفائی کی خاطر صدقہ کرنے کا حکم دیا۔‘‘[2] ۵: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع و محل کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتہائی مختصر اور جامع بات فرمائی۔ فصلوات ربي وسلامہ علیہ۔ د: تاجروں کو بازار سے واپس آنے پر تلاوت کی ترغیب: امام طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یَا مَعْشَرَ التُجَّارِ! أَیَعْجِزُ أَحَدُکُمْ إِذَا رَجَعَ مِنْ سُوْقِہِ أَنْ یَقْرَأَ
[1] ملاحظہ ہو: المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۱۳۵۴، ۳۵/۲۸۴۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کو [حسن لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳۵/۲۸۴)۔ [2] شرح الطیبي ۷/۲۱۱۹۔