کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 169
باہر تشریف لائے: ’أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَنْقَذَہُ مِنَ النَّارِ۔‘‘[1] ’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے، جنہوں نے اس کو (دوزخ کی) آگ سے بچا لیا ہے۔‘‘ صحیح ابن حبان کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ’’قُلْ: ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ أَشْفَعْ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘‘ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، [2] کہو، میں روزِ قیامت اس کی وجہ سے تمہارے لیے شفاعت کروں گا۔‘‘ لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھنا شروع کیا، تو اس کے باپ نے کہا: ’’اُنْظُرْ مَا یَقُوْلُ لَکَ أَبُو الْقَاسِمِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔‘‘ ’’ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کہہ رہے ہیں اس پر غور کرو۔‘‘ اس پر لڑکے نے کہا: ’’أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔‘‘[3] [’’میں گواہی دیتا ہوں، کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘] اس حدیث میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی بچے کو دعوتِ اسلام دی۔
[1] صحیح البخاري، کتاب الجنائز، رقم الحدیث ۱۳۵۶، ۳/۲۱۹۔ [2] یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ [3] الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الجنائز، باب المریض وما یتعلّق بہ، ذکر جواز عیادۃ المرء أھل الذمۃ إذا طمع في إسلامہم، جزء من رقم الحدیث ۲۹۶۰، ۷/۲۲۷۔ شیخ ارناؤوط نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش الإحسان ۷/۲۲۷)۔