کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 159
دکھ کی بات یہ ہے، کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد، بلکہ بعض اہل علم بھی نواسوں اور نواسیوں سے اپنے تعلق کو ان سے لاڈ پیار کرنے، ان کی ضیافت کرنے اور انہیں تحائف دینے میں محدود سمجھتے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا دور دور تک ان کی زندگیوں میں نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نواسوں اور نواسیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔[1] إنہ سمیع مجیب۔ (۱۰) عورتوں کو دعوتِ دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو بھی دعوتِ دین دینے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ ذیل میں اس کے بارے میں تین مثالیں ملاحظہ فرمائیے: ا: پڑوسن کو ہدیہ دینے کی ترغیب: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’یَا نِسَائَ الْمُسْلِمَاتِ! لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِہَا ، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ۔‘‘[2] ’’اے مسلمان عورتو! کوئی ہمسائی اپنی پڑوسن کے لیے (کسی بھی چیز کے بطور ہدیہ دینے کو) حقیر نہ سمجھے، خواہ وہ بکری کا پایہ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
[1] اس بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم السطور کی کتاب ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد‘‘ [2] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب لا تحقرنّ جارۃ لجارتہا، رقم الحدیث ۶۰۱۷، ۱۰/۴۴۵؛ وصحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بالقلیل، ولا تمتنع من القلیل لاحتقارہ، رقم الحدیث ۹۰ (۱۰۳۰)، ۲/۷۱۴۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔