کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 157
عَلٰی صِرَاطِ نَبِیِّکَ الْمُسْتَقِیْمِ[1]۔ آمین یا حي یاقیوم۔ حدیث میں ایک اور فائدہ: اس حدیث شریف سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے، کہ دعوتِ دین کے لیے کوئی مخصوص وقت نہیں،بلکہ جب بھی ضرورت ہو اور موقع مناسب ہو، تو دعوتِ دین دی جائے گی۔ ز:نواسے کو دعائے قنوت سکھلانا: حضرت ائمہ احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن حبان نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’عَلَّمَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَلِمَاتٍ أَقُوْلُہُنَّ فِي الْوِتْرِ: اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ، وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنِيْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلاَ یُقْضَي عَلَیْکَ۔ وَإِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔‘‘[2]
[1] اے اللہ! ہمیں ان بدنصیب لوگوں کی راہ پر نہ چلانا، اور ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمانا۔ آمین یاحي یا قیوم۔ [2] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۷۲۷، ۳/۲۵۲؛ وسنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب الوتر، باب القنوت في الوتر، جزء من رقم الحدیث ۱۴۲۲، ۴/۲۱۱۔۲۱۲؛ وجامع الترمذي، أبواب الوتر، باب ما جاء في القنوت في الوتر، رقم الحدیث ۴۶۳، ۲/۴۶۰؛ وسنن النسائي، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، باب الدعاء في الوتر، ۳/۲۱۸؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب إقامۃ الصلاۃ ،باب ما جاء في القنوت في الوتر، رقم الحدیث ۱۱۶۷، ۱/۲۱۳؛ وسنن الدارمي، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في القنوت، رقم الحدیث ۱۶۰۱، ۱/۳۱۲؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الرقاق، باب الأدعیۃ، ذکر الأمر بسؤال ربہ جل وعلا الہدایۃ والعافیۃ والولایۃ فیمن رُزق إیاھا، جزء من رقم الحدیث ۹۴۵، ۳/۲۲۵۔ امام ترمذی لکھتے ہیں: یہ حدیث [حسن] ہے اور ہم قنوت کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے کسی اچھی چیز کو نہیں جانتے؛ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۲/۴۶۱، وصحیح سنن أبي داود ۱/۲۶۷؛ وصحیح سنن الترمذي ۱/۳۸۰؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۱/۱۹۴)؛ نیز ملاحظہ ہو: إنجاز الحاجۃ ۴/۵۱۷۔۵۱۸۔ الفاظِ حدیث سنن أبي داود کے ہیں۔