کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 156
اور مقصود یہ ہے، کہ ان کے لیے عبادت سے غفلت کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق پر تکیہ کرنا درست نہیں، کیونکہ اگر اس نسبت کے ساتھ عمل نہ ہوا، تو کل قیامت کے دن یہ نسبت انہیں کچھ نفع نہ پہنچائے گی اور نہ ہی عذاب الٰہی سے نجات دلواسکے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَاِِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلَا اَنسَابَ بَیْنَہُمْ}[1] [پس جب صور میں پھونک دیا جائے گا، تو اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہ رہے گی]۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ}[2] [اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے]۔ [3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو تہجد کے لیے جگانے کی تڑپ کس قدر شدید تھی اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف کس قدر صریح اور واضح تھا! اس کے برعکس دین کے لیے کام کرنے والے بعض حضرات اس طرزِ عمل سے کس قدر دور ہیں! وہ خود تو اپنے گمان میں رات دن دعوتِ دین میں مگن رہتیہیں، لیکن ان کے اہل و عیال فرائض کے ترک کرنے اور حدود اللہ کو پامال کرنے والے ہیں۔ ان کا عذر لنگ یہ ہے، کہ خدمت اسلام میں مشغولیت کی بنا پر ان کے پاس اہل و عیال کے لیے وقت نہیں۔ اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْ ھٰؤُلَآئِ الْأَشْقِیَائِ وَاجْعَلْنَا بِرَحْمَتِکَ
[1] سورۃ المؤمنون / الآیۃ ۱۰۱۔ [2] سورۃ الشعراء / الآیۃ ۱۱۴۔ [3] ملاحظہ ہو: شرح الطیبي ۴/۱۲۰۳۔۱۲۰۴۔