کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 138
اگر کوئی مسلمان بھی اپنے مسلمان بھائی کے عیوب ڈھونڈنے کے درپے رہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کو تلاش کرکے، اس کو رسوا کردیں گے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے درمیان میں (لوگوں سے چھپا ہوا بھی) ہو اور جب اللہ تعالیٰ یہ سزا مسلمان کو دیتے ہیں، تو پھر اس شخص کو اس جرم کی کس قدر سنگین سزا ملے گی، جو پہلے ہی سے منافق ہو۔‘‘[1] گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کو بھی دعوتِ دین دی۔ (۶) اہل اسلام، مشرکوں، یہودیوں اور منافقوں کو دعوت مشرکوں، یہودیوں اور منافقوں کو جدا جدا دعوتِ دین دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب اقسام کے لوگوں کو مسلمانوں سمیت ایک ہی مقام پر دعوتِ دین دی۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عروہ سے روایت نقل کی ہے، کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی، کہ: ’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے، اس پر ایک پالان تھی اور اس کے نیچے فدک (شہر) کی بنی ہوئی چادر تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنوحارث بن خزرج کے محلہ میں سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کی عیادت کی غرض سے تشریف لے جارہے تھے۔ یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مجلس کے پاس سے ہوا، جس میں مسلمان، بتوں کے پجاری مشرک اور یہود سب ملے جلے لوگ تھے۔ انہی لوگوں میں عبد اللہ بن ابی اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ جب سواری کی وجہ سے اٹھنے والی گرد مجلس میں پہنچی، تو عبد اللہ بن ابی نے
[1] شرح الطیبی ۱۰؍۳۲۱۶۔